ریپ کی آڑ میں کشمیر میں سازشیں

جموں میں جہاں پسماندہ طبقے کو ڈرا دھمکا کر نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے وہیں کشمیر میں ہندوؤں کو بسانے کی خفیہ کوششیں بھی نظر آرہی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی عدالتوں میں اس وقت ایک لاکھ سے زائدریپ کیس زیر سماعت ہیں (اے ایف پی)

دس جون کا دن بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی تاریخ میں اس لیے سیاسی اہمیت کا حامل ہے کہ اس روز جس عصمت دری اور قتل کیس پر پٹھان کوٹ کی عدالت کو فیصلہ سنانا تھا اس کی بدولت نہ صرف ریاست کی مخلوط حکومت میں پائی  جانے والی دراڑ اتحاد  کے خاتمے پر ختم ہو گئی بلکہ ہندو، مسلمان یا جموں کشمیر کے بیچ دوری اتنی بڑھی کہ ریاست کی سالمیت کو اب شاید زیادہ دیر تک قائم رکھنا ایک معجزہ ہی ہو گا۔

بکروال طبقے سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی گذشتہ برس دس جنوری کو بھیڑیں چرانے کیا گئی کہ 17 جنوری کو اس کی ناقابل شناخت لاش ملی۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ بچی کو اغوا کر کے مندر میں بے ہوش کرنے والی دوائی پلائی گئی اور پھر اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اس بے رحمانہ قتل  اور ریپ کی واردات نے ہندوستان کے بیشتر عوام کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا اور جموں و کشمیر میں خاص طور پر واویلا مچ گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے لے کر ہالی وڈ کے ستاروں نے مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

لیکن دوسری طرف ریاستی حکومت میں شامل اتحادی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو وزرا  نے مجرموں کے حق میں ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے احتجاجی جلوس نکالے اور جموں کے بعض نامور وکلا نے قانونی امداد حاصل کرنے میں بچی کے والدین کے لیے بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔

حتیٰ کہ بچی کا کیس لڑنے والی وکیل دیپکا رجاوت کو مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور وسل بلور طالب حسین کو جیل میں بند کرکے اذیتوں سے گزرنا پڑا۔

اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کے حق میں کٹھوہ کی ہندو اور مجرموں کی رشتہ دار خواتین نے بھوک ہڑتال کی اور سڑکوں پر دھرنا دیا۔ وجہ محض یہ تھی کہ سرغنہ مجرم سانجھی رام بی جے پی رہنما لال سنگھ کا قریبی تھا، جس کو بچانے کے لئے سارا ڈراما رچایا جا رہا تھا۔

بی جے پی کے رہنماؤں، جموں کے وکلا اور بعض کٹر ہندوؤں نے حتی الامکان کوشش کی کہ اس معاملے کو مرکزی تفتیشی ادارے سی بی آئی کو سونپا جائے تاکہ مجرموں کو اثر رسوخ استعمال کر کے بچایا جا سکے مگر پی ڈی پی کی قیادت والی حکومت نے اس کو سرے سے رد کر دیا جو بعد میں اتحادی حکومت ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ بھی بنی۔

ایک نابالغ ملزم سمیت سات افراد کے خلاف چالان پیش کیا گیا تھا۔ وکلا کی دھمکیوں اور متاثرہ بچی کے والدین کو ہراساں کرنے کی کارروائیوں کے پیش نظر سپریم کورٹ نے کیس کی پیروی ریاست سے باہر پنجاب کے شہر پٹھان کوٹ میں سر انجام دینے کا حکم صادر کیا اور تقریباً 17 ماہ کی سماعت کے بعد نابالغ کو چھوڑ کر چھ افراد کو مجرم قرار دیا گیا جن میں سرغنہ سانجھی رام، دیپک کھجوریہ اور پرویش کمار کو عمر قید اور بقیہ تین پولیس والوں سریندر ورما, آنند دتا اور تلک راج کو شواہد مٹانے کے الزام میں پانچ پانچ سال کی سزائے قید دی گئی۔

بیشتر ہندو انتہا پسندوں نے مجرموں کا ساتھ دیا جن کا  اصل مقصد گجر اور بکروالوں کو کٹھوہ کے پہاڑی علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنا تھا، جو یہاں مال مویشی لے کر آتے ہیں اور جنگلی پتے جمع کر کے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔

جموں کے بیشتر پہاڑی علاقوں میں آباد گجروں اور بکروالوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں نے باضابطہ مہم شروع کی ہے جس پر ریاستی اسمبلی میں کئی بار خاصا ہنگامہ بھی ہوا۔

آٹھ سال کی بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور قتل سے بکر وال طبقہ کافی خوف زدہ ہوا اور بعض خاندانوں نے جموں کے بالائی علاقوں سے ہجرت بھی کی۔

پھر میڈیا کی بعض چینلوں نے ہندو کٹر پرستوں کی حمایت میں مذہبی جذبات ابھارے اور کہا کہ ایسا جرم ہی نہیں ہوا یا بعض ہندوؤں نے دھمکیاں دے کر بچی کے خاندان والوں کو کیس واپس لینے پر تقریباً  تیار بھی کر دیا تھا، مگر پولیس کی کرائم برانچ نے کیس کو عدالت میں داخل کرنے میں کلیدی کردار نبھایا۔

گو کہ پورے ہندوستان میں عورتوں سے ہونے والی جنسی تشدد کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں البتہ بعض واقعات میں سیاست دانوں کو ملوث پایا گیا یا مجرموں کو ان کی چھتر چھایا ملنے کے الزامات بھی سامنے آئے جیسا کہ اتر پردیش کے علاقے آناو میں ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔

ریاست جموں وکشمیر 1947 کے بعد تین حصوں سے بنی ہوئی ہے۔ جموں میں برصغیر کے بٹوارے کے دوران لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد ہندو ڈوگروں کی اکثریت ہے۔ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور لداخ میں بودھ رہتے ہیں۔

مرکزی حکومت کی حکمت عملی کے تحت لداخ کو ہل کونسل کا درجہ دے کر جموں کشمیر سے کسی حد تک الگ کر دیا گیا ہے۔ کٹھوعہ کیس کے بعد جموں میں انتہا پسندی کو ہوا دے کر اب جموں اور کشمیر کو منقسم کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو  گذشتہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو ساری نشستیں ملنے کے بعد تیز ہوگئی ہیں۔

 عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد بھی بی جے پی کے ایک رہنما نے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی کیونکہ انہیں اس فیصلے پر شک ہے۔

بھارت میں جہاں اقلیت کے بعض حلقوں میں اداروں کی غیر جانب داری پر شکوک پیدا ہوئے ہیں وہیں کشمیر میں آبادی کا تناسب ختم کرنے پر بھی کافی تشویش پائی جاتی ہے جو اس وقت مزید بڑھ گئی جب بی جے پی کے سربراہ اور وزیر داخلہ امت شاہ نے دفعہ 370 اور دفعہ 35اے کو ختم کرنے کا اپنا ارادہ دہرایا۔

جموں میں اگر پسماندہ طبقے گجر بکر والوں کو ڈرا دھمکا کر ہجرت پر مجبور کیا جا رہا ہے، وہیں کشمیر میں غیر مسلم ہندوؤں کو بسانے کی خفیہ کوششیں بھی نظر آ رہی ہیں جن میں مغربی پاکستان کے وہ لوگ شامل ہیں جو 1947 میں ہندوستان واپس آنے تھے۔

رسانہ میں بچی کے ساتھ ہونے والی انتہائی تشدد کا یہ معاملہ بھی اسی سازش کی کڑی بتایا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں میں خوف پیدا کر کے انہیں اپنے گھروں سے بے دخل کیا جائے۔

عدالتی فیصلے کے بعد کشمیر میں ذرا سی راحت محسوس کی گئی گو کہ ہر کسی نے مجرموں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

2012 میں نربھیا کیس میں تمام مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی جنوں نے دہلی کی ایک بس میں طالبہ کو اجتماعی زیادتی کے بعد بے دردی سے گاڑی سے پھینک کر سر راہ مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔

بھارت کی عدالتوں میں اس وقت ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سے زائد ایسے کیس زیر سماعت ہیں جن میں اسی برس کی عورتوں سے لے کر دو سال کی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔

عورتیں اس خوف میں مبتلا ہیں کہ سیاست اور جرائم میں جو گہرا تعلق پایا جاتا ہے، اس کی وجہ سے شاید ہی متاثرہ بچیوں کو انصاف ملنے کی توقع ہے اور جموں و کشمیر کے خطے میں بی جے پی کی سخت پالسیوں پر ایک انتشار کی کیفیت موجود ہے، جو نہ جانے کب ایک لاوے کی شکل میں پھٹ جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر