ایران میں حکام کے مطابق ایک ایسی میسجنگ ’تحریری اطلاع‘ سروس متعارف کرائی جا رہی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے دارالحکومت تہران میں اخلاقی اقدار پر عمل کی از خود ذمہ داری لینے والے افراد اخلاقی ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے ہمسایوں اور اجنبیوں کے بارے میں خفیہ طور پر اطلاع دے سکیں گے۔
سرکاری خبر رساں ادارے میزان کے مطابق عدلیہ کی جانب سے دارالحکومت کے مکینوں کے لیے تحریری پیغام کی سروس کا مقصد ’اخلاقی اقدار اور پاک دامنی کی خلاف ورزی کے جرائم‘ کی اطلاع متعلقہ ادارے کو دینا ہے۔
دوسری جانب وزارت داخلہ کے حکام نے سخت گیر افراد کے مطالبے کے جواب میں کہا ہے کہ تہران پولیس نے شہریوں کے لیے ایک سروس شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جس کے تحت وہ عوامی سطح پر متعارف کرائے گئے اخلاقی قواعد و ضوابط پر درست طریقے سے عملدرآمد کرنے میں ناکام رہنے والوں کی اطلاع پولیس کو دے سکیں گے۔
عدالتی ترجمان محمد مہدی حج محمدی نے خبر رساں ادارے میزان کو بتایا ہے کہ لوگ معاشرتی اقدار کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں اطلاع دینا پسند کرتے ہیں لیکن انہیں اس کا طریقہ کار معلوم نہیں ہے۔ ’ہم نے عوامی سطح پر غیر اخلاقی عمل کے واقعات سے نمٹنے کا عمل تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
یہ نئی میسیجنگ سروس گاڑی کے اندر سر سے دوپٹہ یا سکارف اتارنے والی خواتین، لڑکے لڑکیوں کی مخلوط محافل کا اہتمام، شراب نوشی یا سوشل میڈیا جیسے کہ انسٹا گرام پرغیراخلاقی مواد شیئر کرنے والوں کے بارے میں خفیہ اطلاع دینے کے لیے استعمال کی جا سکے گی۔
ایران میں جب سخت گیر افراد ’لوگ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اکثر اوقات ان کا اشارہ اس چھوٹے لیکن طاقتور طبقے کی طرف ہوتا ہے جو حکومت کا پرجوش ترین حامی ہے اور اکثر ملکی یونیورسٹیوں اور سرکاری عہدوں پر تعیناتی سمیت رعائتی نرخوں پر سامان فروخت کرنے والے سٹوروں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
ایرانی قائدین اسلامی قوانین اورعوام کی خواہشات کا حوالہ دے کر عوامی زندگی پر سخت حکومتی کنٹرول کا اخلاقی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے اختتام پر پہلی بار تحریری پیغامات متعارف کرانے کے اقدام کا مطلب ہے کہ حکومت نہ صرف اندرون ملک اپنے بہت سے مخالفین کو خوف زدہ کرنا چاہتی ہے بلکہ انتہاپسند اقلیت کی جانب سے اپنی حمایت کو بھی مضبوط بنانے کی خواہش رکھتی ہے۔ یہ اقلیت حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔
امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو معاشی محاذ پرجس دباؤ کا سامنا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایرانی حکام کو معیشت کے حجم میں کمی کی وجہ سے معاشرتی بدنظمی کا خوف ہے۔
انسانی حقوق کی برطانوی تنظیم ’آرٹیکل 19‘ اور آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ، ایرانی انٹرنیٹ پر تحقیق کرنے والی ماہسا علی مردانی کہتی ہیں کہ ایران میں عوامی سرگرمیوں سے متعلق تحریری پیغامات سے شہریوں کی نجی زندگی کو حاصل آئینی تحفط اور شہریوں کے کوائف کو تحفظ دینے کے لیے حال ہی میں بنائے گئے قانون ’ڈرافٹ ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ‘ کی ممکنہ طور پر خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ماہسا علی مردانی نے کہا ہے کہ عام ایرانی شہریوں کی بڑی تعداد تحریری اطلاع کے منصوبے کو نظرانداز کر دے گی۔
انہوں نے تحریری اطلاع کے منصوبے کو ایک یورپی ملک میں متعارف کرائے گئے اس نظام سے تشبیہ دی ہے جس کے تحت شہریوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ اگر انہیں کسی شخص پر داعش کا رکن ہونے کا شبہہ ہو تو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دیں۔
ماہسا علی مردانی کہتی ہیں: ’کوئی بھی فرد جسے میں جانتی ہوں اس قسم کے احمقانہ منصوبے کے قریب نہیں جائے گا لیکن میرا خیال ہے کہ بعض افراد اس کا حصہ بنیں گے۔ یہ یقینی طور پر تشویش کی بات ہے جس سے یہ خوف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی اخلاقی اقدار دراصل معاشرے میں استحکام حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔‘
ہفتے کو تہران میں پولیس نے 547 ایسے ریستوران بند کرنے کا اعلان کیا ہے جن پر الزام تھا کہ وہ اسلامی اصولوں کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے۔ پولیس کے مطابق گذشتہ 10 روز میں اسلامی اقدار کی خلاف ورزی پر سات افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان خلاف ورزیوں میں ’غیرقانونی‘ موسیقی، مخلوط محافل اور آن لائن نامناسب اشتہار بازی شامل ہیں۔
گذشتہ ہفتے ایرانی حکام نے بحیرہ کیسپیئن کے کنارے پر واقع صوبہ گیلان میں دو ہزار خاتون پولیس اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا جو عوامی مقامات پر سر کو نہ ڈھانپنے والی خواتین کے خلاف کارروائی کریں گی۔ یہ خواتین امریکی شہر نیویارک میں مقیم خواتین کے حقوق کی جلاوطن کارکن مسیح علی نژاد کی 18 ماہ سے جاری مہم سے متاثر ہیں۔