یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی جس شدت سے مخالفت کی تھی اس سے یوں لگا تھا کہ جب بھی وہ اقتدارمیں آئیں گے اس مسئلے کواس وقت تک عالمی سطح پر اٹھائیں گے جب تک مارے جانے والے معصوم شہریوں کو انصاف نہیں ملتا۔
خان صاحب کو اقتدار میں لانے میں ان کے ڈرون حملے اور امریکہ مخالف سیاست کا بڑا کردار رہا ہے، تاہم ان کی حکومت کے چار سال بعد یوں لگتا ہے کہ یہ معاملہ ان کے لیے اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔
البتہ واشنگٹن میں امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کا معاملہ آج کل پھر سے گرم ہے اور اس کی وجہ نیویارک ٹائمز میگزین سے منسلک صحافی عظمت خان کی غیرمعمولی رپورٹنگ ہے جس میں انہوں نے عراق میں امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے دل ہلانے دینے والے واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔
عظمت خان کی رپورٹنگ کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ امریکہ اس بات پر بضد ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں صیح اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کارروائیوں میں کئی ایسے بےگناہ شہریوں کو محض غلط انٹیلی جنس کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا جن کا دہشت گردوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کے خاندان کے کسی شخص کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق تھا۔
یہ واقعات ’غلط فہمی‘ کی بنیاد پر پیش آئےلیکن فوج یہ کہہ کر ان حملوں کا دفاع کرتی ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے پیش نظر یہ کارروائیاں ناگزیر تھیں۔ فوجی اہلکار یہ تو کہتے ہیں کہ انہیں ان کارروائیوں میں شہریوں کی ہلاکت پر افسوس ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی فوجی کو معصوم شہریوں کو جان سے مارنے کی غلطی پر سزا دی گئی ہو یا ان کےخلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ایکشن لیا گیا ہو۔
جب بھی کسی ڈرون حملے میں کوئی ہلاکت ہوتی ہے تو متاثرہ خاندان کے افراد یہی سوال کرتے ہیں کہ ان کے عزیز کو کیوں مارا اور اس کا قصور کیا تھا؟ عظمت خان کے مطابق جب بھی کسی ڈرون حملے کے بعد یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس میں شہری ہلاک ہوئے ہیں، فوج ایک خفیہ رپورٹ تیار کرتی ہے جسےcivilian assessment report کہا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں اس واقعہ کی وضاحت کی جاتی ہے اور فوج ان ہی رپورٹس کو خود احتسابی کا ذریعہ بھی بتاتی ہے۔
عظمت خان نے گذشتہ منگل کو ’دی ڈیلی‘ پوڈکاسٹ کو بتایا کہ امریکی فوج نے تاحال ایسی 2800 کے قریب رپورٹس تیار کی ہیں لیکن بہت کم ہی عام کی گئی ہیں۔ نیویارک ٹائمز میگزین کی رپورٹر نے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت پانچ ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات حاصل کئے اور جو دستاویزات انہیں نہیں دی گئیں ان کے حصول کے لیے انہوں نے پنٹاگان اور سینٹرل کمانڈ کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی۔
عموماً یہ رپورٹس 20 سال تک سرکاری طور پر خفیہ رکھی جاتی ہیں جنہیں بالفاظ دیگر ’کلاسیفائیڈ‘ کہا جاتا ہے۔
امریکہ میں جب بھی ایسی کوئی تہلکہ خیز رپورٹ سامنے آتی ہے تو حکومت کے لیے اسے نظرانداز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے کیوں کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ان معاملہ میں دلچسپی رکھنے والے ادارے کانگریس (امریکی پارلیمان) پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ ان رپورٹس کی سماعت کے لیے خصوصی اجلاس منعقد کیے جائیں جن میں ماہرین کو طلب کرکے اس پالیسی میں بہتری کے لیے مشورہ دیں۔
نیویارک ٹائمز میگزین کی حالیہ رپورٹنگ کے فوری بعد معتبر جریدہ ’فارن افئیرز‘ میں لیفٹینٹ کرنل پال لوشنکو، کارنل یونی ورسٹی کی پروفیسر سارہ کرپس اور مائیڈر سے منسلک ماہر شیام رحمان نے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کا خصوصی حوالہ دیتے ہوئے اپنے ایک مشترکہ مضمون میں بائیڈن انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ واشنگٹن کی ڈرون پالیسی پر نظرثانی کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصنفین کا کہنا ہے کہ 2002 سے 2020 تک امریکہ کے ڈرون حملوں میں دس سے سترہ ہزار کے درمیان لوگ مارے گئے جن میں سے800 سے 1,750 کے درمیان عام شہری تھے۔
ان کے مطابق پاکستان میں شہری ہلاکتوں کا تناسب سب سےزیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اوباما کے دور میں اگر ڈرون پالیسی میں تبدیلی نہ ہوتی تو پاکستان میں کئی سو مزید عام شہری ہلاک ہو چکے ہوتے۔
اگر امریکہ میں مستقبل قریب میں ڈرون پالیسی پر نظرثانی کرنے کے مطالبات شدت پکڑتے ہیں تو اس تمام عمل میں پاکستان میں کی گئی امریکی کارروائیاں بڑی اہمیت کی حامل ہوں گی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حوالے سے جتنے ٹھوس شواہد فراہم کرسکتی ہیں اتنا ہی امریکہ میں پالیسی میں تبدیلی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
سرکاری سطح پر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات آج کل شدید سرد مہری کا شکار ہیں۔ اگر حکومت پاکستان کی طرف سے یہ معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو شاید امریکی حکومت جواباً اس معاملے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرے۔ جو پاکستانی شہری امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے ان کا معاملہ اٹھانا حکومت پاکستان ہی کی ذمہ داری ہے۔
علاوہ ازیں، پاکستان، عراق، افغانستان اور صومالیہ کی حکومتیں اس لیے بھی شواہد فراہم کریں کہ یہ معلومات امریکی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مدد کر سکتی ہے کہ وہ اعتماد سے یہ مطالبہ کریں کہ اگر حکومتیں جنگ کا خاتمہ نہیں کرسکتیں تو کم از کم عام شہریوں کا قتل عام فوری طور پر بند کریں اور جو اہلکار شہریوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عام شہریوں کا قتل قطعاً قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔