بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر کا کشمیر پریس کلب صحافیوں کے لیے بند ہے۔
بھارتی انتظامیہ کے مطابق یہ اقدام امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر اٹھایا گیا، مگر کشمیری صحافی اس پر سراپا احتجاج ہیں۔
انتظامیہ نے ایک بڑا تالا پریس کلب کے دروازے پر لگا رکھا ہے اور اس کے مطابق احتیاطاً امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا۔ اس کا کہنا ہے: ’دو مدمقابل گروہ ایک دوسرے پر خطرناک الزام کس رہے تھے۔‘
کشمیری صحافی حیران اور دل شکستہ پریس کلب کے دروازے پر جمع ہیں۔ یہ دروازہ 16 جنوری سے بند ہے، جب چند صحافی بھارتی پولیس کے ہمراہ احاطے میں داخل ہوئے اور خود ساختہ قبضہ جما لیا۔
انہوں نے جمہوری طرز پر چنے ہوئے پریس کلب کے اراکین کو ہٹا دیا۔
بھارت کے نمایاں صحافتی اداروں، جن میں ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، ممبئی پریس کلب اور پریس کلب آف انڈیا شامل ہیں، نے اس عمل کی مخالفت کرتے ہوئے اعلیٰ حکام سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ایک جمہوری ادارے پر ’مسلح قبضہ‘ تھا اور کشمیر پریس کلب میں مسلح افواج کے داخل ہونے کی آزادانہ چھان بین ہونی چاہیے۔
پریس کلب میں ہونے والے اس واقعے پر کشمیر کے دو سابق وزرا اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ نے ٹویٹ کر کے ردعمل ظاہر کیا۔
محبوبہ مفتی نے لکھا: ’آج اقتدار کی پشت پناہی کے سائے میں جس طرح کشمیر پریس کلب پر قبضہ کیا گیا یہ دنیا کے بدترین آمر کو بھی شرم سار کرے گا۔
’ریاستی ایجنسیاں اپنے اصل کام کی بجائے جمہوری طرزِعمل سے چنے ہوئے اداروں اور سرکاری ملازموں کو باہر نکالنے میں مصروف ہیں۔
’جو بھی اس طرح اپنی برادری کے خلاف بغاوت میں ملوث ہیں اور جس نے اس میں مدد کی ان کو شرم آنی چاہیے۔‘
کشمیر پریس کلب 2018 میں بڑی تگ و دو کے بعد تشکیل پایا تھا جس کے ممبران کو جمہوری طرز پر چنا گیا۔ اس کلب کے ساتھ کل 300 صحافی جڑے ہوئے ہیں۔
پریس کلب کے ایگزیکٹیو ممبر گوہر گیلانی نے انڈپینڈٹ اردو کو بتایا: ’کشمیر پریس کلب کشمیری صحافیوں کا سب سے بڑا اور آزاد ادارہ ہے جس کو صحافیوں کی بہبود کے لیے بنایا گیا۔
’سب کشمیر پریس کلب سے فیض پاتے رہے، خصوصاً فری لانس صحافی، خواتین ہو یا مرد۔ یہاں وہ بڑے صحافیوں سے مل سکتے تھے۔
’صلاح مشورہ ہوتا تھا، یہ صحافت کے لیے متحرک جگہ تھی۔ یہاں انٹرنیٹ دستیاب تھا، ریڈنگ روم اور دیگر سہولیات نے اس جگہ کو صحافت کا ڈاک خانہ بنا دیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2019 میں جب کشمیر میں انٹرنیٹ 500 سے زیادہ دن تک بند کیا گیا تو کشمیر پریس کلب نے ان سخت حالات میں اہم کردار نبھایا۔
اس کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ جن صحافیوں کو سرکاری ایجنسیاں طلب کرتی ہیں کشمیر پریس کلب ان کے حق میں آواز بلند کرتا رہا ہے.
گوہر گیلانی نے کہا کہ کشمیر پریس کلب اپنے اخراجات خود اٹھاتا تھا۔ ممبر شپ فیس اور ممبران سے ماہانہ فیس جمع کرکے انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات کی رقم جمع کی جاتی تھی۔
کلب کے جنرل سیکریٹری اشفاق تانترے کہتے ہیں: ’اصل مقصد کشمیر پریس کلب کو بند کرنا تھا، جس کے لیے صحافیوں کے ایک گروہ کو انسٹال کیا گیا۔
’یہ چاہتے ہیں کہ کشمیری صحافیوں کی آواز جو کشمیر پریس کلب کی شکل میں بلند تھی اس کو دبایا جائے۔‘
معروف اخبار دا ٹیلی گراف نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جنہوں نے کشمیر پریس کلب پر قبضہ کیا ان میں بھارت کی حکمران ہندو قوم پریست جماعت بی جے پی کا نمائندہ موجود تھا۔
لیکن صحافیوں کا ماننا ہے کہ کشمیر میں صحافت شد و مد سے جاری رکھی جائے گی۔ کشمیری صحافی بدترین حالات میں بھی اپنا فریضہ نبھانا جانتے ہیں اور ماضی میں بھی ایسا کر کے دکھایا ہے۔