افغانستان میں طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ اگر امریکہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا تو طالبان کی امریکہ سے دشمنی کے دروازے کھلے رہیں گے۔
الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ طالبان کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا تو طالبان اسے دھمکیاں دیتے رہیں گے۔
سراج حقانی نے، جن کے سر پر امریکی وفاقی پولیس نے ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا ہے، مزید کہا کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد تنظیم یا گروپ نہیں ہے جس سے امریکی مفادات کو خطرہ ہو۔
سراج حقانی نے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ دوحہ معاہدے کے پابند ہیں لیکن امریکہ پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
ان کا کہنا تھا: ’ہمیں ان سے وعدہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا کہ ہم کسی تنظیم یا گروہ کو اپنی سرزمین کو ان کے مفادات کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم نے اس عہد کو پورا کیا اور اپنی سرزمین کے اندر سے ان کے خلاف کوئی خطرہ پیدا نہیں ہونے دیا۔‘
حقانی کا ماننا ہے کہ طالبان کے خلاف تمام مغربی اقدامات کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ ان کے بقول امریکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا، ان کے ساتھ غیر سرکاری بات جیت کرتا ہے اور مغربی ممالک کو ان کے ساتھ روابط کی اجازت نہیں دیتا ’اور یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔‘
افغانستان میں باقاعدہ فوج کے قیام اور اس میں سابق فوجیوں اور افسروں کی بھرتی کے بارے میں سراج نے کہا کہ سابق فوجیوں کی تقویٰ اور مہارت کی بنیاد پر ہم انہیں اپنی فوج کی صفوں میں جگہ دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ جو لوگ قانون اور طالبان رہنماؤں کے حکم سے ماوراعدالت کام کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی، لیکن یہ لوگ زیادہ نہیں بلکہ بہت کم تعداد میں ہیں جنہیں طالبان اپنی صفوں میں سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سراج الدین حقانی خطے میں طالبان کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے انہوں نے اپنا چہرہ عوام سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ الجزیرہ نے اس انٹرویو کی نشریات کے دوران بھی ان کا چہرہ بھی دھندلا کر دیا تھا۔
وہ اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ اور یو ایس فیڈرل پولیس میں سب سے اوپر ہیں۔ ایف بی آئی نے اس کی گرفتاری یا قتل کی اطلاع دینے پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ تاہم سراج الدین حقانی مستقل طور پر اپنے دفتر میں موجود ہیں۔
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ سراج الدین حقانی طالبان حکومت کے انچارج ہیں اور انہوں نے کابل میں طاقت کے بڑے مراکز میں قریبی شخصیات تعینات کر رکھی ہیں۔ تاہم طالبان کا ایک حصہ، جسے ’قندھاری طالبان‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کا خیال ہے کہ زیادہ تر حکمرانی حقانی نیٹ ورک کے پاس ہے اور وہ ان کا سامنا کر رہے ہیں۔
سابق افغان حکومت کے ساتھ جنگ کے دوران حقانی نیٹ ورک نے انتہائی جدید ترین اور جان لیوا حملوں کا استعمال کیا، جس میں زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی وجہ سے افغان عوام عموماً طالبان سے زیادہ حقانی نیٹ ورک سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوچکی ہے۔