بانڈ ولن کی طرح دنیا کا امیر ترین شخص ایلون مسک ایک ہی ٹویٹ سے دنیا بھر کی مارکیٹوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ ان کا حالیہ منصوبہ اپنے سٹارلنک پروگرام کے ذریعے پوری دنیا کو انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کرسکتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں وہ زمین کے واحد بااثر نجی شہری بن جائیں گے۔
کسی ایک شخص یا کمپنی کو ذمہ داری کا اتنا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے، تاہم ایلون مسک پر ٹیکس لگانے یا انہیں ریگولیٹ کرنے کے بجائے، اب وقت آگیا ہے کہ ان کے مدمقابل کسی کو لائیں۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ ایلون کے حریفوں کو وہی سبسڈی دی جائے جس نے ٹیسلا اور سپیس ایکس کو غالب بنایا ہے۔
بہت سے لوگ ایلون مسک کو تکنیکی نجات دہندہ کے طور پیش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ دولت مند شخص ذہنوں کو پروگرام کرنے اور خلا میں سفر کرنے کی استطاعت کے ساتھ تیزی سے حقیقی سپر ولن کی مشابہت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ایلون مسک اپنے نیورولنک وینچر کے لیے پر امید ہیں کہ وہ دماغی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرنے اور بڑھانے کے لیے 2022 تک انسانی دماغوں میں مائیکرو چپس کی پیوند کاری شروع کر دیں گے۔
ان کے سپیس ایکس منصوبے نے انہیں خلا کو فتح کرنے اور یہاں تک کہ زمین کے قریب آنے والے سیارچوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت فراہم کی ہے۔ سٹارلنک انٹرنیٹ سروس اب تک فائبر یا ہائی آربیٹ سیٹلائٹ سروس کے ذریعے دستیاب ہے۔ اب سٹارلنک تعینات کے ابتدائی مراحل میں ہے، جس سے انہیں امید ہے کہ یہ انٹرنیٹ کی فراہمی کا ایک نیا دور ہوگا۔
عالمی انٹرنیٹ کوریج کی خواہش یقیناً اچھی ہے۔ اگر یہ کامیاب رہے تو سٹارلنک ان 3.7 ارب لوگوں کو دنیا تک رسائی فراہم کر سکتا ہے جو انٹرنیٹ کے بغیر رہتے ہیں۔ اس طرح کا عزم معاشی لحاظ سے بہت بڑا ہو سکتا ہے، خاص طور پر افریقہ کے صحارا خطے میں ایک گیگا بائٹ انٹرنیٹ پر اوسط ماہانہ آمدن کا 40 فیصد خرچ ہوتا ہے۔
ایلون مسک کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے سٹارلنک دنیا کا پہلا انٹرنیٹ فراہم کنندہ بن سکتا ہے۔ تاہم، اگر یہ کبھی ناکام ہوگیا تو ہمارے لیے سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ یہ بہت بڑا جوا ہے کہ پوری دنیا کے مواصلات کو ایک کمپنی کے ہاتھ میں چھوڑ دیا جائے، جس کو ایک شخص چلاتا ہے۔
زیادہ امکان ہے کہ اہداف حاصل کرنے کے بعد ایلون مسک کو ہیرو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شروع میں ہر کسی کے ارادے نیک ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈارتھ واڈر بھی اپنے خاندان کو بچانا چاہتے تھے اور جوکر دنیا کو ہنسانا چاہتا تھا۔
ایلون مسک کے ارادے اتنے ہی قابل ستائش ہیں جتنے کہ وہ اعلیٰ ذہن کے ہیں، اس کے باوجود ان کی سرگرمیوں کا نتیجہ اتنا خوشنما نہیں ہوسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ اپنے تمام انڈے ایک شخص کی خطرناک ٹوکری میں ڈالنے والا معاملہ ہے۔
جیسا کہ انیسویں صدی کے برطانوی سیاست دان لارڈ ایکٹن نے مشہور مشاہدہ کیا کہ ’مکمل اختیار بالکل بدعنوان بنا دیتا ہے۔‘
ایک شخص کے لیے ہماری تعریفوں یا اس کی کامیابی میں اپنی کامیابی کے لالچ کو ہمارے فیصلے پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔ کسی بھی اچھے سرمایہ دار کی طرح، ایلون مسک اپنے جمع کیے ہوئے سرمائے کے مستحق ہیں۔
انہوں نے پے پال سے لے کر ٹیسلا تک کئی حوالوں سے ہماری دنیا کو ایک بہتر جگہ بنایا ہے۔ وہ تھامس ایڈیسن اور اپنی نسل کے ہنری فورڈ ہیں اور ہمیں ان جیسے مزید لوگوں کی ضرورت ہے، تو پھر ہمیں ایلون مسک کو تباہ کرنے کے بجائے ان کے ہم عصر پیدا کرنے چاہییں۔
آرام خوش فہمی کو جنم دیتا ہے اور کاروبار میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ 1870 میں جان ڈی راکفیلر نے سٹینڈرڈ آئل کمپنی قائم کی۔ ان کے منافع نے سرمایہ کاروں کو اس اجارہ دار فرم میں سرمایہ کاری کرنے اور اس کی حمایت کرنے کی ترغیب دی۔
بالآخر 1906 میں شیرمین اینٹی ٹرسٹ ایکٹ کے تحت اس فرم کو توڑ دیا گیا۔ اس سے پہلے حکومت کو صحیح معنوں میں یہ احساس نہیں تھا کہ اگرچہ اجارہ داری بہت زیادہ صارفین کو وسیع کم لاگت کی سروس فراہم کر سکتی ہے لیکن بھاری اور مرکوز طاقت کے خطرات مسابقت کی طویل اور پائیدار قدر کو کم کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی منطق 1982 میں رونالڈ ریگن کی جانب سے اے ٹی ٹی کو توڑنے پر زور دینے کا باعث بنتی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اہم بنیادی ڈھانچے میں مسابقت کی کمی ملک کو مرکزی ناکامیوں سے دوچار کر دیتی ہے۔
بنیادی طور پر ایلون مسک کو انٹرنیٹ تک رسائی، ہمارے خلائی دریافت کے اقدامات یا ذہنوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت پر اجارہ داری قائم کرنے کے قابل نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں ایسا کرنے سے روکنے کا طریقہ ان کمپنیوں کو سبسڈی دینا ہے جو کم مدار والے انٹرنیٹ کنکشن میں سٹارلنک کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتی ہیں۔
ایک طریقہ ان سٹارٹ اپس کو دوگنا کرنا ہے جنہیں مصنوعی ذہانت اور نیورو سائنسز کے شعبے میں جدت لانے کے لیے فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ یہ طریقہ دوسروں کو تقسیم شدہ الیکٹرک وہیکل (ای وی) سٹیشنوں کی تعمیر اور چلانے میں مدد کرنا ہے۔
اب ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ حقیقی سرمایہ داری اور وسیع البنیاد کاروباری صلاحیتوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ ایلون مسک نے خود سرکاری سبسڈی کا اچھا استعمال کیا ہے، انہوں نے ٹیسلا کے لیے دو ارب ڈالر سے زائد کی سرکاری سبسڈی اور حال ہی میں سپیس ایکس کے لیے 886 ملین ڈالر حاصل کیے ہیں۔ درحقیقت، ایلون مسک نے اپنے کوڈ کو اوپن سورس بنا کر خود مقابلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ وہ خود مزید مقابلہ چاہتے ہیں اور ہمیں انہیں دینا چاہیے
ہمیں کسی اچھے رہنما کو نیچے گرانے کی بجائے دوسرے رہنماؤں کو اوپر اٹھنے کے قابل بنانا ہوگا۔ بڑی طاقت کے ساتھ بڑی ذمہ داری بھی آتی ہے اور کسی ایک شخص کو بھی بہت زیادہ ذمہ داری نہیں سونپنی چاہیے۔ اگر بانڈ ولن مکمل طور پر خیالی رہیں تو یہ انسانیت کے لیے بہتر ہے۔
سِڈ محسب یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں ڈائنامک ڈیٹا حکمت عملی سے منسلک پروفیسر ہیں اور KPMG میں حکمت عملی کے لیے سابق نیشنل سٹریٹجک انوویشن لیڈر ہیں۔ وہ ’دی کیٹر پلر ایج‘ (2017) اور ’یو آر ناٹ دیم‘ (2021) نامی کتابوں کے مصنف ہیں۔
© The Independent