وزیرِ اعظم عمران خان بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے چین گئے تھے۔ اس تقریب سے ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی۔
اس ویڈیو میں ان کے ساتھ بیٹھے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سٹیڈیم کو ایک طرف سے دوسری طرف دیکھتے ہوئے ان سے کہتے ہیں کہ ’کتنا خوبصورت سٹیڈیم بنایا ہے۔‘
جواب میں وزیرِاعظم کہتے ہیں کہ ’ان کا لیول ہی اور ہے۔‘
تقریب کی چکا چوند سے حد درجہ متاثر فواد چوہدری پھر سے سٹیڈیم میں اپنی نظریں دوڑاتے ہوئے میکانکی انداز میں ان کا جملہ دہراتے ہیں، ’ان کا لیول ہی اور ہے۔‘
بے شک چینیوں کا لیول ہی اور ہے۔
سرمائی اولمپکس 2022 کی میزبانی کے ساتھ چین کا دارالحکومت بیجنگ اولمپکس کے کھیلوں کی دو دفعہ میزبانی کرنے والا دنیا کا پہلا شہر بن چکا ہے۔
بیجنگ نے اس سے پہلے 2008 میں گرمائی اولمپکس کی میزبانی کی تھی۔
یہ چین کے لیے ایک ایسا اعزاز ہے جسے وہ کسی بھی صورت میں اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔
کرونا کی عالمی وبا کے خلاف سخت پالیسی اپنا کر چین نے بروقت سرمائی اولمپکس منعقد کیے اور اس اعزاز کو اپنے نام کیا۔
سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب اس کامیابی کا جشن تھی۔ اس تقریب میں تین ہزار لوگوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کے ان کھیلوں کے لیے پیغام ایک مشترکہ مستقبل کے لیے اکٹھے کی تشہیر کی۔
یہ افراد جس سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے وہ دنیا کی سب سے بڑی زمینی ایل ای ڈی سکرین بھی ہے۔
اس سکرین کا رقبہ 10552 مربع میٹر ہے اور یہ 42000 چھوٹی ایل ای ڈی سکرینز کو جوڑ کر بنائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تقریب کے لیے دس میٹر اونچی ایک اور سکرین کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔
چین نے ان دونوں سکرینوں کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت، فائیو جی ٹیکنالوجی، مصنوعی آگمینٹیشن اور انسانی آنکھ سے دیکھے جانے والی تھری ڈی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک ایسی تقریب منعقد کی جس کی چکا چوند نے اسلامی دنیا کی واحد جوہری توانائی کے اس وزیر کو حیران کر دیا جس نے 2022 تک ایک پاکستانی خلا باز کو خلا میں بھیجنے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ تقریب بیجنگ نیشنل سٹیڈیم میں منعقد کی گئی تھی جسے اس کی ساخت کی وجہ سے ’برڈز نیسٹ‘ یعنی پرندے کا گھونسلہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سٹیڈیم 2008 میں ہونے والے بیجنگ گرمائی اولمپکس اور پیرا اولمپکس کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس وقت اس سٹیڈیم میں 91 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ بعد میں 11 ہزار نشستوں کو ختم کر کے نشستوں کی تعداد 80 ہزار کر دی گئی تھی۔ اس سٹیڈیم کا ڈیزائن سوئس آرکیٹیکچر ہرزوگ ڈی میورون اور چینی آرکیٹیکچر لی شنگ گانگ نے مشترکہ طور پر پیش کیا تھا۔
ڈیزائن کے لیے بنیادی شرائط میں اس کا سحر انگیز ہونا اور زلزلے سے محفوظ ہونا شامل تھا۔ اس سٹیڈیم کی تعمیر تقریباً 42.3 کروڑ یوآن کی لاگت سے ساڑھے چار سال میں مکمل ہوئی تھی۔
سٹیڈیم کا آخری تعمیراتی کام 2008 کے گرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے کچھ وقت پہلے ہی مکمل کیا گیا تھا۔
انجینیئروں کا کہنا ہے کہ یہ سٹیڈیم آنے والے کئی سالوں تک بغیر کسی بڑے مرمتی کام کے قائم رہ سکتا ہے اور سخت سے سخت زلزلہ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اس وقت اس سٹیڈیم میں اولمپکس کی افتتاحی اور اختتامی تقریب کے علاوہ متعدد کھیل بھی کھیلے گئے تھے۔ اس دفعہ اس سٹیڈیم کو بس افتتاحی اور اختتامی تقریبات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سرمائی اولمپکس کے کھیلوں کے لیے بیجنگ، یانچھنگ اور جھانگ چیا کو میں 25 مقامات کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تینوں مقامات کے درمیان سفر کے لیے چائنا میڈیا گروپ اور چائنا ریلوے کے اشتراک سے دنیا کی پہلی فائیو جی ایکسپریس ٹرین بھی بنائی گئی ہے۔ یہ ٹرین 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ایک طرف کا فاصلہ 56 منٹ میں طے کرتی ہے۔
چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی ایک خبر کے مطابق اس روٹ پر ایسی اسی ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔ اس ٹرین میں مواصلات کے نظام کی بہترین کارکردگی کے لیے 400 فائیو جی بیس سٹیشن نصب کیے گئے ہیں۔
اس ٹرین میں چائنا میڈیا گروپ کی نشریات کے لیے فائیو جی الٹرا ایچ ڈی سٹوڈیو بھی بنایا گیا ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے دورانِ سفر مختلف پراگرامز فائیو جی ٹیکنالوجی کی مدد سے براہِ راست نشر کیے جا رہے ہیں۔
چینی حکام سرمائی اولمپکس کے ماحول دوست ہونے کا بھی دعویٰ کر رہے ہیں۔
بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کے لیے صرف نیشنل سپیڈ سکیٹنگ اوول کی نئی تعمیر کی گئی ہے۔ بقیہ مقامات وہی استعمال کیے جا رہے ہیں جو 2008 میں گرمائی اولمپکس کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ تاہم، یان چھنگ اور جھانگ چیا کو میں کھیلوں کے لیے بہت سے نئی تعمیرات کی گئی ہیں۔
چائنا میڈیا گروپ نے بیجنگ سرمائی اولمپکس کی نشریات کے لیے CCTV-8K نامی ایک نیا چینل بھی لانچ کیا ہے۔ یہ 8K الٹرا ہائی ڈیفینیشن چینل ہے۔
سرمائی اولمپکس کے تمام مقامات کو فائیو جی ٹیکنالوجی سے کور کیا گیا ہے جس کا مقصد وہاں مواصلات کا بہترین نظام فراہم کرنا ہے۔
تاہم، اولمپکس میں شامل بہت سے کھلاڑی اور دیگر افراد چین کے اس ٹیکنالوجی کے استعمال اور اظہار سے خوفزدہ ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ چین کسی بھی چیز کی مدد سے ان کی جاسوسی کر سکتا ہے۔
بہت سے لوگوں کو ان کے ممالک اور دفاتر کی طرف سے اپنے موبائل فون، اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر برقی آلات گھر چھوڑ کر آنے کا کہا گیا ہے۔
اس ایونٹ میں جو بسیں استعمال ہو رہی ہیں وہ ہائیڈروجن توانائی سے چلتی ہیں۔ ان بسوں کی مدد سے دس ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو 11.8 ٹن تک کم کیا جا سکتا ہے۔
سرمائی اولمپکس کے مین میڈیا سینٹر میں لوگوں کی مدد کے لیے چین کی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طالب علموں کو بطور رضا کار بھرتی کیا گیا ہے۔ یہ رضا کار چار شفٹوں میں کام کرتے ہوئے 24 گھنٹے وہاں موجود لوگوں کی مختلف طریقوں سے مدد کر رہے ہیں۔
کچھ کا کام ترجمان کا ہے۔ کچھ پبلک ہیلتھ کے رضاکار ہیں۔ کچھ ٹرانسپورٹ کے رضاکار ہیں تو کچھ لاجسٹک اور کچھ وہاں موجود ریستورانوں میں بطور رضاکار لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔
ان کے علاوہ ایک روبوٹس کی فوج بھی لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔ کچھ روبوٹ صفائی کر رہے ہیں۔ کچھ کھانا، کافی اور مشروبات بنا رہے ہیں۔ کچھ ان کی ترسیل کر رہے ہیں۔ کچھ سامان کی نقل و حرکت پر معمور ہیں تو کچھ سکیورٹی کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔
ان انتظامات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان ٹھیک ہی کہہ رہے تھے، ’چینیوں کا لیول ہی اور ہے۔‘
افسوس اس بات کا ہے کہ اگلے کچھ سالوں میں وہ اس لیول سے بھی آگے چلے جائیں گے اور ہم ان سے دور کھڑے بس یہی کہہ رہے ہوں گے کہ ان کا لیول ہی اور ہے۔