صوبہ سندھ کے شہر نواب شاہ کی پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن کے نرسنگ شعبے کی ہاؤس آفیسر پروین زادی رند نے شعبے کے ڈائریکٹر اور وارڈن پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے۔
پروین زادی نے انکار کرنے پر ’شدید تشدد‘ کیے جانے کا الزام بھی لگایا ہے۔
ان کے ان الزامات کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے کر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن میمن نے واقعے پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پروین زادی رند نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’میں ایک ماہ پہلے پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن کے نرسنگ شعبے میں ہاؤس آفیسر مقرر ہوئی ہوں اور یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتی ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے بہت عرصے سے نرسنگ شعبے کے ڈائریکٹر غلام مصطفیٰ راجپوت دوستی کرنے اور جنسی تعلقات رکھنے کا بول رہے ہیں۔ وہ مجھے واٹس ایپ پر میسیج کرتے رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے انکار پر مجھے امتحانات میں فیل کرنے کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔‘
’کل صبح جب میں ہاسٹل پر اپنے کمرے میں تھی تو ہاسٹل کے نرسنگ شعبے کی استاد میڈم فرحین اور ہاسٹل کی وارڈ عاطقہ آئیں اور کمرے کا دروازہ لاک کرکے میرا گلا دبایا اور کہا کہ آپ کیوں ڈائریکٹر کی بات نہیں مان رہی ہیں۔ انہوں نے میرا موبائل بھی چھین لیا اور مجھ پر تشدد کیا۔‘
بعد میں ان کا میڈیکل یونیورٹی ہسپتال میں میڈیکل چیک اپ کیا گیا۔
میڈیکل لیگل آفیسر (ایم ایل او) ڈاکٹر نازیہ مگسی کی رپورٹ کے مطابق ’پروین زادی رند کے گلے، بازو، ہاتھوں پر چوٹ کے نشانات ہیں اور ان کے گال پر بھی سوجن ہے۔‘
پروین زادی رند کے مطابق نہ تو انہیں میڈیکل رپورٹ دی گئی اور نہ ہی ان کا مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ ’سندھ کی جامعات میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران چار، پانچ طالبات کی خودکشیوں کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ طالبات خود کو نہیں مارتیں بلکہ ان انہیں جنسی زیادتی کے انکار پر مار دیا جاتا ہے اور بعد میں خودکشی قرار دیا جاتا ہے۔‘
’میں بلاول بھٹو زرداری سے درخواست کرتی ہوں کی یہ یونیورسٹی ان کے والدہ بینظیر بھٹو نے بنائی تھی۔ مجھ سے انصاف کیا جائے۔‘
دوسری جانب یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر قربان علی کے دستخط کے ساتھ جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے وائس چانسلر اینڈ ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز پروفیسر ڈاکٹر فریدہ وگن، پروفیسر ڈاکٹر قربان علی راہو اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ شاہانی پر مشتعمل تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے۔
بیان کے مطابق کمیٹح تین دن میں رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔
پروین زادی نے یونیورسٹی انتظامیہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عدالتی کمیٹی تشکیل دے کر انہیں انصاف دلایا جائے۔
واقعے کے خلاف سندھی قوم پرست جماعتوں نے پروین زادی رند کے ساتھ نواب شاہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنہ بھی دیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے جب وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن میمن اور رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر قربان علی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پر کوئی بھی تبصرہ نہیں کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ نرسنگ شعبے کے ڈائریکٹرغلام مصطفیٰ راجپوت سے بھی رابطہ کیا گیا تاہم ان کی جانب سے بھی تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
دوسری جاب ڈویژنل ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن شہید بینظیر آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر غلام عباس گوراہو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ واقعے کے بعد پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن کی جانب سے ایک پریس بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے ایسا کوئی واقعہ یونیورسٹی میں پیش نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ ’بیان کے مطابق صرف ہاسٹل میں مقیم طالبات اور ملازمین کے کمرے تبدیل کیے جا رہے تھے، جس پر ایسا الزام لگایا گیا۔ اس کا حتمی فیصلہ کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد کیا جائے گا۔‘