بلوچستان کے ضلع کچھی کے دور افتادہ گاؤں جلال خان میں خشک سالی اور نتیجتاً ذرائع آمدن کی کمی کے باعث کل ہندو برادری ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تاہم ان کا قائم کردہ سائیں مادھو داس کا مندر پر آج بھی رونق ہے۔
کچھی کے مکینوں کا انحصار بارش اور برساتی پانی پر ہے جو نہ ہو تو انسان اور جانور مشکل صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ جلال خان کے علاقے میں سب سے بڑی مشکل صورتحال پینے کے پانی کی ہے۔
پانچ دہائی قبل یہاں پر قحط سالی اور بارشوں کے نہ ہونے کے باعث ہندو برادری نے مکمل نقل مکانی کرکے دوسرے شہروں کا رخ کرلیا۔ اب یہاں اس مندر کے علاوہ ہندو برادری کا کوئی فرد مستقل آباد نہیں۔
جلال خان کے رہائشی اور اس وقت دالبندین میں مقیم برج لال نے قحط سالی کے باعث زراعت سے منسلک تجارت کے خاتمے کو نقل مکانی کی وجہ بتایا۔
’میری پیدائش سے قبل بڑے بتاتے ہیں کہ اس گاؤں میں 600 سے 700 گھرانے آباد تھے جو 86-1985 تک چند گھرانے رہ گئے تھے۔
’بعد میں انہوں نے بھی دوسرے شہروں کا رخ کرلیا اور اس وقت سے یہاں کوئی ہندو آباد نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ضلع کچھی میں زراعت بہت اچھی ہے اور زمین بہت ذرخیز۔ یہاں پر دالوں، جوار اور گندم کی فصلیں کاشت ہوتی ہیں، جس کے کاروبار سے ہماری برادری کے لوگ وابستہ تھے۔‘
اس مندر کے قریب ایک بہت بڑا بازار ہوا کرتا تھا جس کے قریب ہندو برادری کے لوگ آباد تھے جو کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔
یہاں پر اس وقت بہت بڑی تجارت ہوتی تھی جو یہاں سے پیدا ہونی والی دالوں، گندم جوار اور دوسری فصلوں سے منسلک تھی۔
’ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ بتدریج قحط سالی کی وجہ سے زراعت کی پیداوار کم ہو گئی اور وقت کے ساتھ یہاں پر رہائش مشکل ہو گئی۔‘
گاؤں میں ایک بڑے رقبے پر قائم مندر کے بارے میں برج لال کہتے ہیں کہ یہ تقریباً سو ڈیڑھ سو سال پرانا ہے۔ ’ہم تو اس کو 1947 سے قبل اسی طرح دیکھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ سائیں مادھو داس کا مندر کہلاتا ہے۔ یہاں ہر سال جنوری میں میلہ لگتا ہے، جس میں بلوچستان اور دیگر علاقوں سے ہندو برادری کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔‘
برج لال نے بتایا کہ ’ہندو برادری کے جانے سے مندر متاثر نہیں ہوا۔ یہاں اب بھی لوگ دور دراز سے آتے ہیں۔ یہاں پر بھٹی چلتی ہے جس کے ذریعے ان کو رہنے کی جگہ اور کھانا وغیرہ دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں بھٹی چلتی ہے۔ وہاں کا نظام کبھی نہیں رکتا۔ اس مندر میں بھی یہی سلسلہ چل رہا ہے۔ اس وقت بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگوں کا رش ہے۔‘
برج لال کے بقول ’اس مندر میں ایک وقت میں پانچ ہزار لوگ کھانا کھا سکتے ہیں جبکہ اس میں مزید توسیع کا کام ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں ایک طرف لوگوں کے آنے سے یہاں کے لوگوں کا روزگار لگ جاتا ہے۔ وہیں ہندو برادری کے لوگ اپنی شادیاں بھی یہاں کرنے کے لیے آتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں ہر وقت رونق لگی رہتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ گاؤں سردار جلال خان مغیری کے نام پر ہے۔ ’انہوں نے اور ان کے بیٹوں نے ہندو برادری کے ساتھ بہت اچھا سلوک روا رکھا ہے۔ ہم یہاں پر بہت محفوظ تھے۔
برج لال نے بتایا کہ ’یہاں پر جو دکانیں تھیں وہ سردار جلال خان نے ان کو مفت دے رکھی تھیں اور ان سے کسی قسم کا کوئی کرایہ وصول نہیں کیا جاتا تھا۔‘
گاؤں جلال خان سے نقل مکانی جاری ہے
گاؤں میں اب بھی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ پینے کے پانی کی کمی ہے۔
یہاں کے رہائشی میرلشکر خان مغیری بلوچ نے بتایا کہ وہ گذشتہ 70، 72 سالوں سے اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ ’اگر بارشیں نہ ہوں تو ہم پیاسے مر جائیں۔‘
لشکر نے بتایا کہ ’اس وقت یہ تالاب جس کو پینے کے پانی کے لیے بھرا گیا ہے۔ گذشتہ سال اکتوبر میں اس میں پانی آیا تھا۔
’یہ بھی اس وجہ سے موجود ہے کہ اس کی گہرائی میں کھدائی کی گئی لیکن اس کے ساتھ جو دوسرا تالاب ہے۔ وہ خشک پڑا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا عرصے سے مطالبہ رہا ہے کہ اگر حکومت یا دوسرے ادارے کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم از کم ضلع کچھی میں پانی کے جو تالاب ہیں۔ ان کو گہرا کر کے ان کے ارد گرد باڑ یا دیوار لگا دی جائے تاکہ کوئی جانور اس سے پانی نہ پی سکے اور گر کر مر نہ جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لشکر خان نے بتایا کہ ’اس پانی سے جانور اور ہم اکھٹے پانی پیتے ہیں جو مضر صحت ہے اور مجھ سمیت یہاں کے اکثر لوگ گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جس طرح پہلے زمانے میں لوگ اس علاقے کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری۔ یہاں پہلے 300 گھر تھے جو اب کم ہو کر 20 سے 25 رہ گئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کچھی کا زیر زمین پانی کڑوا ہے۔ جو پینے کے قابل نہیں ہمارے گاؤں میں حکومت نےایک فلٹر پلانٹ تو لگا دیا ہے۔جو تالاب کا پانی فلٹر کرتا ہے۔
’لیکن اس کو چلانے والا کوئی نہیں۔ اس طرح کچھ مخیر حضرات نے تالاب کے قریب کم گہرائی میں پمپ لگا دیے ہیں جن سے ہمارے کچھ مسائل کم ہوئے ہیں۔‘