حکومت پاکستان نے ان خبروں کی تردید کردی ہے، جن میں حالیہ دنوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں ان کے کئی قیدیوں کی رہائی کا دعوی کیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے اس سوال کے جواب میں کہ ’کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کے قیدیوں کی رہائی کی گئی ہے؟‘ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تصدیق نہیں کی اور نفی میں جواب دیا۔
تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے حمایت یافتہ محسود قبائلی جرگے کے درمیان افغانستان میں چند روز قبل مذاکرات کی اطلاعات کے بعد ایسی خبریں گردش میں ہیں کہ حکومت نے متعدد طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے بھی مذاکرات پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں موجود ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کی کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور افغانستان کے وزیر داخلہ سراج حقانی کی مداخلت اور سرپرستی میں محسود قبائلی جرگے کا وفد افغان سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کے بعد واپس پاکستان پہنچ گیا ہے، جس کے بعد پاکستانی حکام اب تک 40 کے قریب طالب قیدیوں کو رہا کر چکے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں ایک سرکاری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 20 فروری 2022 کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے لیے 10 رکنی کمیٹی طورخم بارڈر کے راستے افغانستان گئی، جس میں شامل ملکان / بزرگوں کی تفصیلات یہ ہیں۔
1- ملک نصر اللہ (وزیرستان کے سربراہ)
2- ملک خان مرجان وزیر (انگھڑ کلی میران شاہ، شمالی وزیرستان)
3: ملک حبیب اللہ داوڑ (ڈارپا خیل میران شاہ، شمالی وزیرستان)
4: ملک میرقدر داوڑ (ڈارپا خیل میران شاہ، شمالی وزیرستان )
5: ملک جان فراز وزیر (تحصیل سروبی دوسالی، شمالی وزیرستان)
6: ملک شیر خان وزیر (تحصیل طوری خیل میرالی، شمالی وزیرستان)
7: ملک خان زیب داوڑ (چیف آف داوڑ، شمالی وزیرستان)
8: مولوی مصباح الدین داوڑ (تحصیل عیدک میرالی، شمالی وزیرستان)
9: ملک پیر عقل شاہ داوڑ (مبارک شاہی تحصیل میرالی، شمالی وزیرستان)
10: ملک قادر جان وزیر (کابیل خیل تحصیل شیوہ، شمالی وزیرستان)
معروف صحافی و تجزیہ نگار طاہر خان نے مذاکرات اور قبائلی جرگے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق جنوبی وزیرستان سے ایک وفد 17 فروری کو افغانستان گیا تھا، جب کہ دوسرا وفد 20 فروری کو گیا ہے۔
طاہر خان کے مطابق: ’جنوبی وزیرستان کا وفد واپس آگیا ہے، شمالی وزیرستان کا آج چلا گیا ہے۔ اطلاعات یہی ہیں، البتہ آئی ایس پی آر سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔‘
مغربی نیوز ریڈیو چینل ’مشال‘ سے وابستہ صحافی داؤد خٹک نے بھی ٹوئٹر پر بتایا کہ ٹی ٹی پی اب تک 40 سے زائد قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کرچکی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے ایک رہنما لطیف محسود اور سوات سے تعلق رکھنے والے بعض رہنماؤں سمیت تقریباً 102 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
داؤد خٹک نے اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ حکومت پاکستان آنے والے چند دنوں میں مزید قیدی رہا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
’نیوز ویک‘ اور ’ڈیلی بیسٹ‘ کے ساتھ وابستہ صحافی و افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رہا کیے گئے قیدی وہ ہیں جو ٹی ٹی پی کے مطابق پاکستان کی جانب سے بےگناہ پکڑے گئے تھے۔
سمیع یوسفزئی کے مطابق: ’ٹی ٹی پی کی جانب سے سوات سے تعلق رکھنے والے جن طالبان جنگجؤوں کی رہائی کا مطالبہ ہو رہا ہے، ان میں سوات طالبان کے ترجمان مسلم خان، ان کا بیٹا، کمانڈر حاجی عمر اور محمود شامل ہیں۔‘
مختلف غیرملکی میڈیا اداروں سے بات کرتے ہوئے پاکستانی طالبان نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اپنے جن پانچ اہم اراکین کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا، پاکستانی حکام انہیں اب تک رہا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والا جرگہ مقامی عمائدین پر مشتمل ہے لیکن ذرائع کے مطابق، ٹی ٹی پی چاہتی ہے کہ ان کے ساتھ حکومتی سطح پر پاکستان میں یا کسی دوسرے ملک میں مذاکرات شروع ہوں۔
پاکستان فوج نے اب تک اس موضوع پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز سے منسلک وزیرستان کے ایک صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ جنوبی وزیرستان سے محسود قبائلی جرگہ طالبان کے عہدیداروں کے ساتھ افغانستان خوست میں مذاکرات کے بعد واپس لوٹا ہے، جب کہ شمالی وزیرستان اتمانزئی وزیر جرگہ افغان وزیر داخلہ سراج حقانی سے ملنے کے لیے خوست پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رہائی پانے والے 40 سے زائد طالبان کا تعلق خیبر پختونخوا کے جنوبی وشمالی وزیرستان، سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔
تحریک طالبان کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی فوج کی قید میں موجود ان کے تمام ساتھیوں کو رہا کیا جائے اور پاکستان میں شرعی قانون نافذ کیا جائے۔
اس سے قبل ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام کے درمیان افغانستان طالبان کی ثالثی میں ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، جو گذشتہ سال دسمبر کے اوائل میں قیدیوں کی رہائی پر پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوگیا تھا۔
ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان ان کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہوگیا ہےاور وہ مزید جنگ بندی جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔
پاکستانی حکومت اور سکیورٹی حکام نے بھی یہ بیان جاری کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ختم ہوچکے ہیں۔