پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003 کے سیز فائر معاہدے کی تجدید کو آج ایک سال مکمل ہو گیا ہے اور اس دوران لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائر بندی سے وہاں بسنے والے شہریوں کی زندگیاں پرسکون ہوئی ہیں، جس پر وہ کافی خوش ہیں۔
ستمبر 2016 میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے پانچ مختلف مقامات پر ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کے دعوے کے بعد دونوں ممالک کی فوجیں کئی مرتبہ آمنے سامنے آئیں۔ اس دوران لائن آف کنٹرول پر دونوں اطراف سے گولہ باری کے بعد شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا رہا اور بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 2003 میں سیز فائر معاہدے سے لے کر 2021 میں اس کی تجدید کے درمیانی عرصے میں 13 ہزار 500 سے زائد مرتبہ اس معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ اس دوران کل 310 افراد مارے گئے اور 1600 کے قریب زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ان میں سے تقریباً 92 فیصد خلاف ورزیاں 2014 سے 2021 کے درمیان ہوئی ہیں۔
تاہم گذشتہ سال آج ہی کے دن اچانک اور غیر متوقع طور پر دونوں ممالک کی جانب سے 2003 کے سیز فائر معاہدے کی تجدید اور اس کی پاسداری پر اتفاق سے دونوں ممالک کے عوام اور خاص طور پر کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب کے قریبی علاقوں میں بسنے والے شہری خوشگوار حیرت کے زیر اثر ہیں۔
خصوصاً پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے وادی نیلم میں فائر بندی معاہدے کے مثبت اثرات نمایاں ہیں۔ یہ علاقہ ایل او سی کے آر پار فائرنگ کے تبادلے میں سب سے زیادہ متاثرہ ہونے والے علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
وادی نیلم کے صدر مقام آٹھمقام میں بسنے والے شہری اس معاہدے کی بحالی سے کافی خوش ہیں اور اس کی پاسداری جاری رہنے کے خواہاں ہیں۔
سیز فائر معاہدے کی تجدید کے بعد لائن آف کنٹرول کے اطراف زندگی اپنے معمول کی طرف لوٹنا شروع ہوئی۔ تعلیمی اور کاروباری سرگرمیاں بحال ہوئیں اور خاص کر کئی سالوں سے زوال پذیر سیاحت کی صنعت دوبارہ سے پھلنے پھولنے لگی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ سیاحت کے اعداد و شمار کے مطابق سیز فائر معاہدے کی تجدید کے بعد گذشتہ ایک سال کے دوران تین لاکھ 65 ہزار سیاح وادی نیلم آئے اور اس صنعت نے اوسطاً 80 ملین روپے کا کاروبار کیا۔
سیاحت کے شعبے سے منسلک شہری شیخ عتیق الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران سیاحت کی صنعت میں کافی بہتری آئی ہے۔
ان کے بقول: ’گذشتہ ایک سال سے ایل او سی پر جو فائر بندی ہوئی ہے، اسے اگر سیاحت کے تناظر میں دیکھا جائے تو سیاحت میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایل او سی کے دونوں اطراف نہ صرف عمومی طور پر کاروبار بڑھا ہے بلکہ بالخصوص سیاحت سے منسلک جتنا بھی کاروبار ہے، اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔‘
عتیق الرحمٰن نے مزید کہا: ’دونوں اطرف کے کشمیری اس بات سے خوش ہیں کہ یہ جو فائر بندی کا معاہدہ ہوا ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے اور ہم اس حوالے سے پر امید ہیں کہ سیز فائر معاہدے میں آئندہ بھی توسیع کی جائے گی۔‘
شہریوں کا کہنا ہے کہ سیز فائر کے بعد ان علاقوں میں معمولات زندگی بحال ہوئے، لوگوں نے فائرنگ کے دوران تباہ ہونے والے اپنے گھروں کی تعمیر شروع کی اور علاقے میں تعلیمی و کاروباری سرگرمیاں بحال ہوئیں۔
’سیز فائر معاہدے کو برقرار رہنا چاہیے‘
آٹھمقام کی رہائشی زلیخا بی بی گولہ باری کے سالوں کو یاد کرکے آج بھی خوفزدہ ہیں اور مطالبہ کرتی ہیں کہ سیز فائر معاہدے کو برقرار رہنا چاہیے۔
وہ کہتی ہیں: ’جب گولہ باری ہوتی ہے تو جو نوالہ ہاتھ میں ہوتا ہے، وہ ہاتھ میں رہتا ہے اور جو منہ میں ہوتا ہے منہ میں ہی رہتا ہے اور ہم کہیں چھپنے کی جگہ تلاش کرتے ہیں بلکہ زندہ قبروں میں اتر جاتے ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ گولہ باری نہ ہو اور ہم امن سے رہ سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گولہ باری کے دوران لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کو شہروں یا قریبی محفوظ مقامات پر بھیج دیتے ہیں جبکہ زلیخا بی بی جیسے کئی لوگوں کے بچے گھروں میں قید ہو جاتے ہیں۔
اس بارے میں وہ بتاتی ہیں: ’ایک سال ہو گیا گولہ باری نہیں ہوئی۔ ہمارے بچے سکولوں میں جاتے ہیں، پڑھتے ہیں، ہماری زندگی امن سے گزر رہی ہے۔ گولہ باری ہوتی ہے تو ہم بھی متاثر ہوتے ہیں، بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان پڑھ رہ جاتے ہیں، پڑھ نہیں سکتے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ حکومت ہمیں مورچے (حفاظتی بنکر) بنا کر دے گی مگر ہماے پاس کوئی نہیں آیا جو بنکر بنا کر دے۔ ہمیں بے شک مورچے نہ دیں، ہمیں امن دے دیں۔ ہمارے علاقے میں گولہ باری نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے ہمارے بچے اَن پڑھ رہتے ہیں۔‘
زلیخا بی بی نے کہا: ’ایک سال ہوگیا ہے۔ ہم سکون سے رہ رہے ہیں۔ ہمارے بچے سکون میں ہیں، ہمارا پورا علاقہ سکون میں ہے۔ ہمارے بچے کاروبار کرکے اپنے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے قابل ہیں۔ جب گولہ باری ہوتی ہے تو پھر ہم سب فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘
’ہم امن چاہتے ہیں۔ گولہ باری نہیں ہوتی تو ہمارے علاقے میں ترقی ہوتی ہے، ہم خوشحال رہتے ہیں۔ پورا علاقہ خوشحال رہتا ہے۔ یہاں ترقی ہوتی ہے۔ ہم بھی خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔‘