قومی اسمبلی میں حزب اختلاف نے حکومت کی جانب سے 11 جون کو پیش کیے گئے وفاقی بجٹ 20-2019 کو مسترد ککرتے ہوئے اس کی ڈٹ کر مخالفت کرنے کا اعلان کیا۔
بدھ کو ایک ہفتے کی تاخیر کے بعد ہونے والے بجٹ اجلاس میں کئی گھنٹے لمبی تقریر میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی دس ماہ کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے صدر نے مزید کہا کہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق جیل میں ہیں لیکن ’اگر یہ تمام اپوزیشن کو بھی گرفتار کر لیں تب بھی ہم اس عوام دشمن بجٹ کی ڈٹ کر مخالفت کریں گے۔‘
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابات سے قبل جو 50 لاکھ گھروں کا نعرہ لگایا تھا اس کے لیے اس بجٹ میں ایک دھیلا نہیں رکھا گیا ہے۔
اجلاس کے دوران جب ان کا خطاب طویل ہو گیا تو سپیکر قومی اسمبلی نے ان سے اپنے خطاب کو مختصر کرنے کی درخواست کی جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ’ابھی تو شروعات کی ہے، شام کا سیشن ہوگا، رات کا سیشن لگانا ہے، آپ کھانے کا بندوبست کریں جناب سپیکر۔‘
انہوں نے عمران خان کے انتخابات سے قبل آئی ایم ایف کے حوالے سے بیانات کو دوہراتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان تو آئی ایم ایف کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے تھے لیکن اب آئی ایم ایف کا کشکول تھما دیا ہے، آئی ایم ایف کے پاس جا کر عمران خان پاکستان کو خود کشی کے دہانے پر لے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’یہ ہمارے قرضوں کی بات کرتے ہیں لیکن انہوں نے خود صرف 10 مہینوں میں پانچ ہزار ارب کا قرضہ لے لیا ہے۔‘
قائد حزب اختلاف کا مزید کہنا تھا کہ اس بجٹ میں پانچ اہم شعبے غائب ہیں جن میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقعے بنانا، مہنگائی کو اور کم کرنا، جی ڈی پی کو بڑھنا، کاروبار اور برآمدات کو بڑھانا اور سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہ بجٹ آئی ایم ایف سے مشاورت سے نہیں بنا بلکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے بنایا ہے۔‘
اس پر شہباز شریف نے ایک شعر بھی پڑھا:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
شہباز شریف نے ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے اجتماعی کوششوں پر زور دیا اور کہا کہ ہم ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ میثاق معیشت کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی اس دوران اسمبلی سے مختصر کلام کیا جس میں انہوں نے سپیکر سے آصف زرداری سمیت دیگر گرفتار رکن پارلیمان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’بجٹ سیشن بہت اہم ہوتے ہیں، اس میں ملک کے معاشی فیصلے لیے جاتے ہیں، لوگ معیشت کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’یہ سیشن ایک ہفتے سے جاری ہے اور اس ہاؤس کے چار نمائندوں کے پروڈکشن آرڈر ابھی تک نہیں جاری کیے گئے۔‘
انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سوال کیا کہ اس موقع پر ’آپ شمالی، جنوبی وزیرستان، نواب شاہ اور لاہور کے عوام کو بجٹ پراسیس سے کیسے دور رکھ سکتے ہیں، انہیں کیسے اپنا حق ادا کرنے نہیں دے سکتے۔‘