امریکہ کے ایک فوجی ماہر نے بدھ کو دعویٰ کیا ہے کہ آبنائے ہرمز کے قریب جاپانی آئل ٹینکر پر حملے کے لیے جو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا وہ ان ’لمپٹ‘ بارودی سرنگوں سے’بہت مشابہے ہے‘ جن کی ایران میں نمائش کی جا چکی ہے۔
اس بارے میں امریکی بحریہ کے کمانڈر شون کیڈو، جنہیں دھماکہ خیز مواد کا ماہر بتایا جاتا ہے، نے متحدہ عرب امارات کے علاقے فوجیرہ میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران بتایا ہے۔
متحدہ عرب امارات ایران پر امریکہ کی ’زیادہ سے زیادہ دباو مہم ‘ میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے حملے کی زد میں آنے والے دونوں بحری جہاز متحدہ عرب امارات کے ساحل کے قریب لنگر انداز ہیں۔
امریکی بحریہ کے کمانڈر شون کیڈو نے صحافیوں کو ملبے کے ٹکڑے اور ایک مقناطیس دکھایا ہے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ایران کے پاسدارانِ انقلاب 13 جون کو خلیج عمان میں حملے کے بعد نہ پھٹنے والی ایک بارودی سرنگ کو مبینہ طور پر ہٹا کر اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔
ایران نے کوئی بارودی سرنگ لے جانے کا اعتراف نہیں کیا اور امریکی فوج کی جانب سے دکھائی گئی ایک ویڈیو جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں ایرانی حکام کو بارودی سرنگ ہٹاتے دیکھا جا سکتا ہے غیر فیصلہ کن دکھائی دیتی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی فوجی کمانڈر شون کیڈو نے کہا ہے کہ ’جو لمپیٹ بارودی سرنگ بحری جہازوں پر حملے میں استعمال کی گئی تھی اس بارودی سرنگ سے بہت ملتی جلتی ہے جس کی ایرانی فوجی پریڈوں میں نمائش کی گئی تھی۔‘
کمانڈر شون کیڈو نے کہا: ’ہم نے جو نقصان دیکھا ہے وہ لمپیٹ بارودی سرنگ سے ہونے والے نقصان سے ملتا جلتا ہے۔‘
البتہ امریکی فوجی کمانڈر نے ان بارودی سرنگوں سے ہونے والے نقصان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں بتایا۔
ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کردی تھی جس میں گذشتہ ہفتے جاپانی آئل ٹینکر’Kokuka Courageous‘ اور ناروے کی ملکیت آئل ٹینکر ’Front Altair‘ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
خود مختار تجزیہ کار اور سکالرز کہتے ہیں کہ حملے میں ایران کے ملوث ہونے کا امکان موجود ہے۔
امریکی کمانڈر شون کیڈو نے حکام کے بارے میں تفصیل دیے بغیر کہا ہے کہ انہیں بحری جہازوں پر انگلیوں کے نشانات ملے ہیں جو فوجداری کارروائی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہو سکا کہ امریکی فوج اس حملے کی تحقیقات کیوں کر رہی ہے جس میں غیرممالک کی ملکیت دو بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ ان پر موجود سامان نہ تو امریکہ کی ملکیت تھا اور نہ ہی امریکہ کی طرف سے کہیں بھیجا جا رہا تھا۔