پاکستان کرکٹ کی کہانی ابھی اتنی قدیم نہیں ہوئی ہے کہ ماضی کو کریدنے کے لیے کتابوں کا سہارا لیا جائے لیکن اگر کتابوں میں اسے مقید کر بھی دیا جائے تو حنیف محمد سے یونس خان تک کے بلے بازوں کی کہانیاں تو سما جائیں گی لیکن ایک ایسا کھلاڑی ہےجس کے شاٹس کی سحر انگیزی کو الفاظ میں پرونے کے لیے شاید صفحات کم پڑ جائیں۔
اس کے بلے سے جب گیند ٹکراتی تھی اور بسم اللہ خان کی شہنائی کی مدھر دھن کی طرح لہراتی اٹھلاتی ہوئی باؤنڈرئ لائن سےگزرجاتی تھی اور ایسالگتا تھا کہ ذاکر حسین نے طبلے کی کوئی تال چھیڑ دی ہو۔
اس کا بیٹنگ میں آگے بڑھنا کچھ جھکنا اور پھر کچھ پیچھے سرکنا ایسا لگتا تھا کہ کوئی رقاصہ اپنے انگ انگ کو سمیٹ رہی ہو۔
جب اس کا بیٹ گیند پر آتا تھا تو اتنے نپے تلے انداز میں کہ نہ بازؤں کی طاقت اور نہ جسم کا بوجھ بیٹ پر ڈالنا پڑے بس کسی ماہرسنار کی طرح جس کی ایک ہلکی سی چوٹ ہیرے کا جگر کاٹ دیتی ہے ، وہ بھی چشم زدن میں گیند کو افقی پرواز پر مائل کر دیتاتھا۔
ظہیر عباس کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ وہ آئے اور چھا گئے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنی دوسری ہی اننگ میں کرکٹ کی جنم بھومی میں اس کے خالقوں کے خلاف پانچ دس نہیں بلکہ پورے 274 رنز بنانے والا کوئی نو آموز تو نہیں ہوسکتا تھا۔
پھر بھی وہ تھا تو ابھی تجربے سے عاری لیکن اس کا حوصلہ جوان تھا۔
کلائیوں کے زور پر جس طرح انگلش بولرز کی درگت بنا رہا تھا اس پر انگریز ماہرین حیران تھے۔ کیونکہ انگلینڈ کے مخصوص موسمی حالات میں گیند کو صحیح وقت پر روکنا ہی ایک کارنامہ ہوتا ہے۔
ظہیر عباس نے ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ کرکٹ کے بانیوں کو اپنے شاٹس پر آنکھیں گھمانے پر مجبور کیا ہے۔
ظہیر عباس جنھیں ان کے مداح پیار سے زیڈ کہتے ہیں اپنے آبائی وطن سے زیادہ انگلینڈ میں مشہور ہیں جہاں کاؤنٹی میچوں میں ان کی سنچریوں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔
وہ اپنے وقت کے ان عظم بلے بازوں میں سے ایک ہیں جن کی بیٹنگ دیکھنے کے لیے شائقین ہی نہیں ماہرین بھی منتظر رہتے تھے۔
انگلینڈ کے مخصوص موسمی حالات اور دنیا کے بہترین بولرز کے سامنے وہ اس مہارت سے بیٹنگ کرتے تھے کہ دیکھنے والے محوحیرت رہ جاتے۔
ایجبسٹن سے لیڈز تک ان کی ڈبل سنچریوں کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔
ان کی ایشین پچز سے باہر شاندار کارکردگی پر بجا طور پرایشین بریڈ مین اور رن بنانے کی مشین کہا جاتا ہے۔
وہ پاکستان کے واحد بلے باز ہیں جنھوں نے سنچریوں کی سنچری بنائی ہوئی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں بھی ان کے نام کے آگے رنز کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن وہ پاکستان کرکٹ کے وہ انوکھے کردار ہیں جن کی زیادہ اچھی کارکردگی پاکستان کی سست پچز سے زیادہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کی پچوں پر ہے۔
اگر بات بھارت کے 1978 کے دورے کی چھڑ جائے تو نصف سے زائد داستان زیڈ کی فیصل آباد اور لاہور کی اننگز سے بھر جائے گی۔ جہاں اس وقت کا بہترین سپن بولنگ اٹیک بے بسی کی کیفیت میں سر پٹخ رہا تھا۔
اس دورے میں وہ پہلی بار پاکستانی سرزمین پر سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
انہوں نے فیصل آباد میں 168 اور لاہور میں 235 رنز کی بے مثال اننگز کھیلیں۔
بھارتی بولنگ ہمیشہ ان کا ہدف رہی۔ اس کی وجہ شاید ان کا انفرادی فٹ تھا جو ورک سپن بولنگ کو کھیلنے کے لیے لاجواب تھا۔
وہ جس مہارت سے آف سٹمپ کی گیند کو بھی سویپ شاٹ مارتے تھے وہ بعد میں آنے والے بلے بازوں کے لیے کوچنگ مینیول بن گیا اور دنیا کے کامیاب بلے بازوں نے اسے اپنایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
124 ٹیسٹ اننگز میں 5062 رنز بنانے والے ظہیر عباس جن کے تاج میں 12 سنچریاں ہیروں کی طرح چمک رہی ہیں تو چار ڈبل سنچریاں اس کو مزید تابناک بنارہی ہیں۔
شاید اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں وہ بہت سے بلے بازوں میں کم نظر آئیں۔ لیکن ان کی بیٹنگ کا انداز اور پہلی ہی گیند سےاعتماد کا اظہار انھیں اپنے ہم عصروں ہی نہیں بلکہ تاریخ کرکٹ کے عظیم بلے بازوں میں ممتاز کرتا ہے۔ وہ ان بہت سے بلے بازوں سے بہت آگے نظر آتے ہیں جن کی سنچریاں زیادہ ہیں یا اوسط بہت اچھی ہے۔ لیکن ان کی بیٹنگ زیڈ کی بیٹنگ کے حسن کامقابلہ نہیں کرسکتی۔
نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے ظہیر عباس کے کیرئیر میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن 1985 میں سری لنکا کےخلاف ان کا اپنے جنم بھومی سیالکوٹ میں 78 واں ٹیسٹ آخری ٹیسٹ میچ ثابت ہوا۔
وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناروا سلوک کے باعث ٹیسٹ کرکٹ کو خیر باد کہہ گئے ۔
معروف صحافی قمر احمد بتاتے ہیں کہ ’زیڈ اس ٹیسٹ میں بہت دلبرداشتہ تھے اور میچ کے دوران مجھے کہا کہ میں بہت اہم بات بتانا چاہتا ہوں۔ شاید وہ اپنے سینے میں دبی ہوئی ساری کہانیاں سنانا چاہتے تھے۔ لیکن وہ دراصل اپنے کیرئیر کا اختتام اپنے آبائی شہر سے کرنا چاہ رہے تھے۔‘
قمر احمد کہتے ہیں کہ ’انہوں نے تردید کی کہ وہ ٹیم میں کسی اختلافات کے باعث ایسا کررہے ہیں وہ جس دھماکہ دار انداز میں آئے تھے اتنی ہی خاموشی سے ریٹائر ہوگئے۔‘
انہوں نے پاکستان ٹیم کی کپتانی بھی کی لیکن انھیں گلہ رہا کہ انھیں اس وقت کپتانی سے ہٹادیا گیا جب عمران خان اچانک واپس آئے اور ان سے کپتانی لے لی۔
اپنے وقت کا عظیم بلے باز جس کی خدمات کا اعتراف غیروں نے پہلے کیا اور آئی سی سی نے دو سال قبل ہال آف فیم میں شامل کیا تھا، بالآخر پی سی بی بھی کو بھی خیال آگیا اور گذشتہ روز کراچی میں جاری ٹیسٹ میچ کے دوران انہیں ہال آف فیم کا اعزاز پیش کیا گیا۔
اعزازات اور انعامات سے بالاتر ظہیر عباس اپنے سحر انگیز شاٹس کے بدولت تاریخ کرکٹ کا روشن عنوان رہیں گے اور جب بھی بلےبازوں کی بات ہوگی تو ظہیر عباس نمایاں بلے بازنظر آئیں گے۔