خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع کے جنگلات میں حالیہ دنوں کے دوران آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ جنگلات کے مطابق اب تک حالیہ دنوں میں آگ لگنے کے تقریباً 92 واقعات سامنے آئے ہیں جس میں بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تحت لگائے جانے والے پودوں کے علاوہ دیگر درختوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اس حوالے سے لوگوں کی جانب سے مختلف قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں جس میں بعض کا خیال ہے کہ حکومت خود ان جنگلات کو آگ لگا رہی ہے تاکہ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں مبینہ کرپشن کو چھپایا جا سکے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات اور ان قیاس آرائیوں میں صداقت کے بارے میں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں اور دیگر ماہرین سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ جنگل میں آگ کیوں لگتی ہے اور اس کو بجھانے کے لیے کیا حکومت کے پاس ضروری آلات اور سہولیات موجود ہیں۔
محکمہ جنگلات پشاور کے فارسٹ آفیسر شفقت منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں جنگلات میں آگ لگنے کی ایک بڑی وجہ یہاں آنے والے سیاح ہیں جو مختلف جنگلات میں سیر کے لیے جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سیاح وہاں جا کر کھانا پکانے کے لیے آگ لگا دیتے ہیں اور واپسی پر اس کو بجھاتے نہیں جس کی وجہ سے وہ آگ پھیل کر پورے علاقے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آگ کے واقعات کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اب تک تقریباً 92 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو زیادہ تر کمیونل جنگلات جو لوگوں کی جائیدادیں ہیں جن پر لگی ہے لیکن محکمہ جنگلات ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ شمالی علاقہ جو صوابی کے جنگلات سے شروع ہو کر ڈی آئی خان تک جاتا ہے میں تقریباً 40 ہیکٹیرز کی زمین آگ سے متاثر ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ ایک ہیکٹیرز میں تقریباً 19 کنال کے برابر کی زمین ہوتی ہے۔
اس حوالے سے ایک سرکاری رپورٹ جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہوئی ہے میں لکھا گیا ہے کہ ملاکنڈ ایسٹ سرکل میں تقریباً 30 ہیکٹیرز کی زمین آگ سے متاثر ہوئی ہے جو شراکت داری کی زمین ہے۔
اس طرح رپورٹ کے مطابق ناردرن ایبٹ آباد فارسٹ ریجن میں آگ لگنے کے 68 واقعات میں 700 ہیکٹیرز سے زائد زمین متاثر ہوئی ہے۔
ان 68 واقعات میں 27 ایسے جنگلات شامل ہیں جہاں پر پودوں کو اگایا گیا تھا جبکہ باقی انکلوزر تھے یعنی اس میں پہلے سے پودے اور درخت موجود تھے اور محکمہ جنگلات اس کی رکھوالی کرتا ہے۔
بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کو کتنا نقصان پہنچا؟
فاریسٹ آفیسر شفقت منیر نے بتایا کہ ان سارے واقعات میں بلین ٹری سونامی کے 0.01 درخت مکمل یا جزوی طور پر جل گئے ہیں۔ ایک بلین درختوں میں سے اگر یہ فیصد نکالا جائے تو ایک لاکھ سے زائد پودے بنتے ہیں جس کو نقصان پہنچا ہے۔
بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تحت خیبر پختونخوا میں ایک ارب سے زائد پودے لگائے گئے ہیں جس میں 40 فیصد خودرو درخت جبکہ باقی لگائے گئے ہیں۔
وہ جنگلات جہاں بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تحت پودے لگائے گئے تھے اور جہاں پر آگ لگی تھی میں جون کے واقعات کے حوالے سے محکمہ جنگلات کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ کوہاٹ ریجن میں 16000 تک پودوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اسی طرح پشاور ریجن میں 26000 سے زائد پودوں کو نقصان پہینچا ہے جبکہ نوشہرہ آرمی رینج مانکی شریف میں 3000 پودوں کو نقصان پہنچا۔
مردان ریجن میں کرامار پہاڑوں میں لگی آگ سب سے بڑا واقعہ تھا اور اس آگ کو بجھانے میں چار دن لگے تھے۔ اس واقعے میں رپورٹ کے مطابق تین اینکلوزر کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک انکلوزر میں 40 ہیکٹیرز کی زمین ہوتی ہے جبکہ مردان ریجن کے گدون علاقے میں سات ہیکٹیرز سے زائد زمین کو نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے تین جنگلات کے ریجنز جس میں کوہاٹ و بنوں، پشاور اور ملاکنڈ ڈویژن شامل ہے میں 12 لاکھ سے زائد پودوں کو نقصان پہنچا ہے۔
شفقت منیر سے جب پوچھا گیا کہ کیا محکمہ جنگلات کے پاس آگ بجھانے کے لیے ضروری سہولیات موجود ہیں تو انھوں نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کے پاس بجٹ نہیں ہوتا اور نہ حکومت کی طرف سے ابھی تک اس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں کہ محکمہ جنگلات ہر جگہ پہنچ کر آگ بجھانے میں مدد کر سکے۔
‘ہمارے فارسٹ گارڈز ڈنڈوں سے اس قسم کے آگ بجھاتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی ادار ے یونین اف کنزویشن آف نیچر نے حکومت خیبر پختونخوا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت حکومت کو جنگلات میں آگ بجھانے کے آلات دیے گئے ہیں لیکن وہ صرف شنکیاری علاقے میں موجود ہیں۔‘
اب تک ہونے والے زیادہ تر واقعات میں آگ بجھانے کے لیے ریسکیو 1122 کا عملہ ہی پہنچ سکا ہے جن کے مطابق جنگل میں آگ بجھانا ان کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہے۔
ریسکیو 1122 پشاور کے ترجمان بلال احمد فیضی نے بتایا کہ ان کے پاس ہیلی کاپٹر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر جنگلات میں فائر فائٹرز کو پانچ گھنٹے تک پیدل جانا پڑتا ہے جبکہ پہاڑیوں پر جانے کے لیے دیگر ضروری سہولیات بھی ان کے پاس موجود نہیں ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’اس کے باوجود کے یہ ہمارے دائرہ کار میں نہیں ہم تو کوشش کرتے ہیں کہ پودوں کو نقصان نہ پہنچے۔‘
آگ کیسے لگتی ہے؟
پشاور یونیورسٹی کے نفیس محمد کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں جنگلات میں آگ لگنے پر تحقیقات تو ہوئی ہیں لیکن اس میں واضح طور اس کی وجوہات سامنے نہیں آئی ہیں۔
تاہم تحقیق میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے ذیادہ تر جنگلات کو لوگ پیسے اور جانوروں کے چارے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
شفقت منیر نے اس حوالے سے بتایا کہ آگ کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ لوگ جنگلات کی خشک جھاڑیوں کو اس لیے جلا دیتے ہیں تاکہ بارش کے دنوں میں وہاں دوبارہ پودے اگ جائیں اور اس کو جانوروں کے لیے بطور چارہ استعمال کیا جا سکے۔
انھوں نے بتایا کہ حالیہ واقعات میں کوہاٹ سے ایک خاتون کو اسی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا کہ انھوں نے اسی مقصد کے لیے جھاڑیوں کو آگ لگائی تھی جو بعد میں پھیل گئی تھی۔
مختلف رپورٹس کے مطابق جنگل میں آگ لگنے کی وجہ سے پودوں کو نقصان کے علاوہ جنگلی حیات کو خاص کر جو زمین پر رینگنے والے حشرات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور اس علاقے کی ہوا بھی آلودہ ہو جاتی ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ موحولیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر شفیق الرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنگلات میں آگ گرمیوں کے موسم میں لگنا کوئی حیرانی کے بات نہیں ہے تاہم عوام میں آگاہی کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر یہ واقعات لوگوں کی وجہ سے ارادی یا غیر اردی طور پر آگ لگنے سے پیش آتے ہیں۔