محکمہ داخلہ بلوچستان نے آئی جی پولیس، ڈویژنل کمشنرز، ڈی جی لیویز، ڈی آئی جی پولیس، ڈپٹی کمشنرز اور ایس ایس پیز کو ہدایت کی ہے کہ سکیورٹی خدشات اور امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر سکیورٹی کے تمام انتظامات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔
محکمہ داخلہ حکام کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ’تمام سرکاری اداروں، نجی عمارتوں، اداروں، مارکیٹوں، سکول اور یونیورسٹیوں میں حفاظتی انتظامات سخت کیے جائیں۔ سکیورٹی انتظامات پر فوری عمل درآمد کرکے انہیں فول پروف بنایا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کر کے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو ناکام بنائیں۔‘
حکومت بلوچستان کا موقف:
ادھر حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ملک دشمن قوتیں بلوچستان کے امن کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عوام افواہوں پر کان نہ دھریں۔ اپنا کاروبار معمول کے مطابق کریں۔ دہشت گرد عناصر یہ نہ سمجھیں کہ ہم کسی سے خوفزدہ ہیں۔ ہماری سیکورٹی فورسز ہر طرح سے الرٹ ہیں۔ ہم کسی سے بھی خوفزدہ نہیں ہیں۔ عوام کی جان و مال کی حفاظت کی خاطر ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تمام تعلیمی ادارے عوام کے تحفظ کی خاطر بند کیے گئے ہیں۔ اور کسی بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہماری سکیورٹی فورسز ہر وقت تیار ہیں۔‘
کاروباری سرگرمیاں متاثر:
شفیع ملاخیل ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ جو چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ انہیں آج جمعرات کے روز ایک غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب وہ کوئٹہ شہر میں داخل ہوئے۔
شفیع نے بتایا کہ ’شہر میں لوگوں کی آمد ورفت میں کمی اور مارکیٹ میں گاہکوں سے خالی دیکھ کر انہیں کچھ عجیب لگا۔ لیکن انہوں نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حالات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے اپنے ایک گاہک سے وصولی کرنی تھی اور کاربار میں ایک دم کمی کے باعث دکاندار نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آج انہیں کوئی پیسےادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔‘
شفیع کہتے ہیں کہ اس قسم کی صورتحال کا سامنا انہیں کبھی نہیں رہا۔ کیوں اس سےقبل اگر کبھی امن وامان کا مسئلہ بھی رہا ہے تو حالات کچھ دیر کے بعد واپس بحال ہو جاتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت جو شہر کے حالات اس سے نہیں لگتا کہ آج کوئی کاروبا ہو گا۔ تمام دکاندار بھی فارغ بیٹھے ہیں۔ انہیں بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کس وجہ سے لوگ شہر آنے سے گریزاں ہیں۔‘
تعلیمی سرگرمیاں بھی بند:
کوئٹہ میں تعلیمی اداروں کی بندش کے علاوہ بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن نے آج ہونے والا میٹرک کا پرچہ بھی ملتوی کردیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علاوہ ازیں یونیورسٹی آف بلوچستان کی طرف سے جاری خط کے مطابق حالیہ خطرے کا ادراک کرتے ہوئے کسی ںاخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے یونیورسٹی آف بلوچستان اور اس کے سب کیمپس میں اکیڈمک اور ایڈمنسٹریشن شعبے دونوں 17 مارچ اور 18 مارچ کو بند رہیں گے۔
ایک اور خط جو سینٹرل پولیس آفس کی جانب سے ایڈیشنل انپسکٹر جنرل آف پولیس کے دستخط سے جاری ہوا ہے، میں سکیورٹی قافلوں، حساس مقامات اور سول حکومتی دفاتر پر بعض مسلح گروہوں کی طرف سے سبوتاژ حملوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
خط کے مطابق یہ حملے 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع کوئٹہ، قلات، مستونگ کے علاوہ کسی بھی جگہ ہوسکتے ہیں۔ جس کے لیے تمام حفاظتی انتظامات کو سخت کرکے چیکنگ کا نظام مزید مضبوط کیا جائے۔
ان سکیورٹی خدشات کے حوالے سے بلوچستان کے مشیر داخلہ سے متعدد بار رابطہ کر کے موقف لینےکی کوشش کی گئی، تاہم انہوں نے فون اور واٹس ایپ پر سوال کا کوئی جواب دینے سے گریز کیا۔
قبل ازیں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤںٹ پر ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ مطلع کیا جاتا ہے کہ کوئٹہ کے سکول 17 اور 18 مارچ 2022 کو بند رہیں گے۔‘
دوسری جانب حالیہ سکیورٹی خدشات کے بعد محکمہ ریلوے نے کوئٹہ، مچھ، سبی اور چمن میں ریلوے سٹیشنوں کے سکیورٹی انتظامات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
محکمے نے مسافر ٹرینوں کی روانگی اور آمد کے اوقات میں آنے والے مسافروں کی جامع تلاشی لینے کی ہدایت جاری کی ہے۔
حکام کے اس انتباہ کے بعد سوشل میڈیا پر بھی بعض صارفین شہریوں کو خبردار کرتے رہے کہ وہ شہر میں ضرورت کے بغیر سفر سے گریز کریں اور آئندہ چند روز گھروں میں گزاریں۔