پاکستان کی وفاقی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی عدم اعتماد تحریک کی ابتدا کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ایک طرف تو منحرف ارکان اسمبلی اور مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کیا جارہا ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کارکن منحرف ارکان اسمبلی کے گھروں پرتشدد احتجاج کررہے ہیں۔ مگر سیاست میں نازیبا زبان کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ کر عدم اعتماد کی تحریک میں مخالف جماعتوں کا ساتھ دینے پر پی ٹی آئی کے منحرف رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کے گھر کے باہر گزشتہ روز احتجاج اور ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام میں پی ٹی آئی کے چار کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
پولیس نے واقعے کا کراچی کے بوٹ بیسن تھانے میں مقدمہ درج کرکے پی ٹی آئی ارکان سندھ اسمبلی شاہ نواز جدون اور سعید اللہ آفریدی کو بھی نامزد کردیا۔ مقدمے اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف پی ٹی آئی کارکنوں نے کلفٹن تھانے کے باہر احتجاج کیا۔
کراچی میں پی ٹی آئی ایم این اے کے گھر پر پرتشدد احتجاج والا واقعہ واحد نہیں ہے بلکہ گزشتہ چند روز میں پی ٹی آئی کارکنان نے ملک کے مختلف شہروں میں پارٹی کے منحرف ارکان اسمبلی کے گھروں کے باہر احتجاج کیا ہے۔ ان ارکان اسمبلی کو حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔ پی ٹی آئی کے 13منحرف اراکین بشمول نور عالم خان، افضل ڈھاندلا، نواب شیر وسیر، راجہ ریاض سمیت احمد حسین ڈیہر، رانا قاسم نون، غفار وٹو، باسط بخاری کو شوکا زنوٹس جاری ہوئے تھے۔
چند روز قبل کراچی کے علاقے لیاری سے الیکشن لڑنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شکور شاد کے گھر ڈنڈا بردار افراد کے حملے میں ان کا پوتا بھی زخمی ہو گیا۔ شکور شاد نے سوشل میڈیا پر سی سی ٹی وی کیمرا کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں درجنوں کی تعداد میں افراد کو ان کے گھر پر حملے کے لیے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ میں پی ٹی آئی کی ناراض ایم این اے وجیہہ قمر کے گھر کے باہر احتجاج کے دوران ن لیگ اور حکمران جماعت کے کارکن آمنے سامنے آگئے، دونوں میں تکرار بھی ہوئی۔ این اے 110 فيصل آباد ميں پی ٹی آئی کے منحرف رکن راجہ ریاض کے خلاف احتجاجاً بینر آویزاں کرنے کے علاوہ ان کے نام سے لگے ترقیاتی کاموں کےافتتاحی بورڈزپرسیاہی پھیر دی گئی اس کے علاوہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے تحریک انصاف کے منحرف ایم این اے نواب شیر کے حلقہ میں بھی احتجاج ہوا ۔
تحریک انصاف کے کارکنوں نے اسلام آباد کے ریڈزون میں واقع سندھ ہاؤس پر احتجاج کرنے کے علاوہ توڑ پھوڑ بھی کی۔
پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے سیاسی مخالفین کے خلاف نازیبا زبان کا بھی چرچا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزرا کی جانب سے سیاسی مخالفین کے خلاف نازیبا زبان پر سوشل میڈیا پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مولابخش چانڈیونے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کی بدزبانی نے سیاست کوگدلاکردیاہے۔ انھوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ سیاسی مخالفین کے لیے عمران خان اور پرویزخٹک کی نازیبا زبان کا نوٹس لیا جائے۔
سندھ میں مخالفین کے گھروں پر احتجاج کی تاریخ
کراچی میں نجی ٹی وی چینل سے منسلک صحافی اور تجزیہ نگار فیاض نائچ کے مطابق پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسمبلی ارکان کی جانب سے فلور کراسنگ یا ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی کی طرف جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں عدم اعتماد کی تحریک یا کسی اور سبب سے اسمبلی ارکان اپنی پارٹی سے منحرف ہوکر دوسری جماعتوں میں شامل ہوئے مگر ان کے خلاف ان کی پرانی پارٹی کے کارکنان کے احتجاج کی مثال نہیں ملتی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فیاض نائچ نے بتایا: ’سندھ میں مخالفین کے گھروں کے باہر احتجاج کی ایک تاریخ ہے، مگر یہ احتجاج کسی منحرف ارکان اسمبلی کے گھروں پر نہیں بلکہ مختلف معاملات پر ہوا۔‘
’ان احتجاجوں میں سرفہرست متنازع کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں باتیں کرنے والے سیاست دانوں کے گھروں کے باہر سندھ کے لوگوں نے احتجاجاً توے ٹانگے۔ اس کے علاوہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی جانب سے متنازع گریٹر تھل کے حق میں چلانے والی مہم کا حصہ بننے والوں کے گھروں پر احتجاج ہوا۔ دوہرے بلدیاتی نظام کے خلاف بھی ایسا احتجاج ہوا۔‘
پاکستانی سیاست میں مخالفین کے لیے نازیبا زبان کی لمبی تاریخ
پاکستانی سیاسی تاریخ میں مخالفین کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال پاکستان بنتے ہی شروع ہوگیا۔ پاکستان بننے کے تین سال بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے سیاسی رہنما اور پاک چین تعلقات کے معمار حسین شہید سہروردی کے خلاف نازیبا الزامات عائد کیے۔
سابق فوجی آمر ایوب خان نے اپنی آپ بیتی ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھا کہ گورنر جنرل ملک غلام محمد اپنے مخالف سیاستدانوں کو گندی گالیاں دیتے تھے۔
بعد میں ایوب خان خود نے الیکشن میں فاطمہ جناح کی مقبولیت کے بعد ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔ ایوب خان نے فاطمہ جناح کو شادی نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایوب خان کی ڈائری میں شیخ مجیب الرحمن کو ’گنوار اور سیاسی غنڈہ‘ لکھا گیا جب کہ ممتاز دولتانہ کو ’مکار لومڑ‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔
’الیکشن کے دوران فاطمہ جناح نے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نصرت بھٹو کے خلاف صنفی بنیادوں پر کردار کشی کی بھی مہم چلی۔ اس کے علاوہ بے نظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف کی جانب سے نازیبا کارروائیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ شیخ رشید کا مخالفین کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنا بھی عام ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے جب بے نظیر بھٹو کے خلاف بدکلامی کی تو سندھ میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔
فیاض نائچ کے مطابق ’پاکستانی سیاست میں گندی زبان کے استعمال کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ جب بھی اسٹیبلشمنٹ کسی مقصد کے لیے کوئی پارٹی بناتی ہے تو وہ وہ جماعت کیوں کہ سیاسی طریقہ کار سے نہیں بنی ہوتی اور صرف کنگز پارٹی ہوتی ہے نہ کہ ایک سیاسی جماعت۔ اس لیے اس پارٹی کے رہنما اس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں۔‘
’آپ پاکستانی سیاست کی تاریخ دیکھ لیں، اسٹیبلشمنٹ کے آشرباد سے بننے والے جماعتوں نے ہمیشہ نازیبا زبان استعمال کی ہے۔‘
پی ٹی آئی قیادت کی نازیبا زبان پر بات کرتے ہوئے فیاض نائچ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جماعت کے اندر کا کلچر اس طرح بن گیا ہے کہ مخالفین کو گالیاں دی جائیں۔ ’پی ٹی آئی میں شامل لوگ یا تو غیر سیاسی ہیں، یا پھر دوسری جماعتوں سے آئے ہیں۔ جماعت میں شامل غیر سیاسی لوگ کیوں کہ سیاسی پروسیس سے نہیں گزرے تو ان کی تربیت ہی نہیں ہوئی۔ اس لیے وہ ایسی گفتگو کرتے ہیں۔‘
’آج پی ٹی آئی منحرف ارکان کو لوٹا کہہ رہی ہے، مگر جب یہی لوگ دوسرے پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو انھیں خوش آمدید کہا گیا۔ 2018 کے الیکشن کے دوران پی ٹی آئی نے ایک سپورٹ اور تحفظ والے ماحول میں سیاست کی، اب پوری قیادت بوکھلاٹ کا شکار ہوگئی ہے اور اس لیے ایسی زبان استعمال کررہی ہے۔‘