پاکستانی پاپ موسیقی میں 90 کی دہائی کا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو سٹرنگز اور اس کے گلوکار فیصل کپاڈیا سے واقف نہ ہو۔
گذشتہ برس سٹرنگز کو ختم کرنے کا اعلان کئی دل توڑ گیا تھا، تاہم اب فیصل نے بطور گلوکار کوک سٹوڈیو کے سیزن 14 کا آخری گانا ’پھر ملیں گے‘ گا کر اپنے چاہنے والوں کو ایک نئی جلا بخشی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے فیصل نے پوچھا کہ کوک سٹوڈیو سیزن 14 کا اختتام آپ کے گانے ’پھر ملیں گے‘ پر ہوا، یوں لگا جیسے یہ گانا آپ نے سٹرنگز کے لیے گایا ہو۔
اس پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’یہ محض اتفاق ہے کہ یہ گانا اس طرح کا آگیا کہ لگتا ہے جیسے سٹرنگز کے لیے گایا ہو۔‘
انہوں نے بطور گلوکار پہلی مرتبہ سٹرنگز بینڈ کے بغیر گانا گایا تھا۔
اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اپنے بینڈ کے ساتھ کام کرنا آسان ہوتا ہے، آپ کا اپنا انداز ہوتا ہے اور گانے آپ اپنے انداز کے مطابق بناتے ہیں لیکن کسی دوسری ٹیم کے ساتھ کام کرنا مختلف ہوتا ہے جو اچھا بھی ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم بات ہے کہ یہ گانا عوام کو پسند آرہا ہے، یہ احساس کسی فنکار کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔
کوک سٹوڈیو کے سیزن 14 کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چند سال بعد میوزک کا انداز بدل جاتا ہے، جیسے اس مرتبہ کوک سٹوڈیو نے نئے گانوں کو ہی لیا، کچھ عرصہ پہلے تک صرف کورز ہی کیے جا رہے تھے۔
’اس وقت اوریجنل میوزک کا دور ہے جو بہت ہی اچھا ہے۔‘
پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی میوزک کی کمرشلائزیشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس دور میں اگرچہ گانا بنانا بہت آسان ہو گیا ہے مگر اسے ڈسٹری بیوٹ کرنا کافی مشکل ہے، کیونکہ یوٹیوب سے گانا آسانی سے پھیلتا نہیں جب تک اسے کچھ پیسے لگا کر پھیلایا نہ جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کی رائے میں کارپوریٹ سیکٹر کا ہونا بہت اہم ہے لیکن تخلیقی عمل میں انہیں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ کوک سٹوڈیو تخلیق کررہے تھے تب کم از کم تخلیقی عمل میں کوئی مداخلت نہیں تھی۔
اداکاروں کے گانے پر ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اگر کوئی اچھا گا سکتا ہے تو گائے لیکن صرف اداکار ہونے پر گانا نہیں ہونا چاہیے، دنیا کے کئی ممالک میں اداکار گاتے ہیں اور بہت اچھا گاتے ہیں۔
ڈیجیٹل ماسکنگ اور آٹو ٹیوننگ پر ان کا کہنا تھا کہ یہ اوزار ہیں تو ہیں، لیکن گانا یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا، اگر براہِ راست گانا پڑ جائے تو کیا کریں گے۔
سٹرنگز بینڈ کو ختم کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کیونکہ ہر اچھی چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔
‘سٹرنگز اس سے پہلے بھی دو مرتبہ ختم ہوا پھر شروع ہوا، لیکن ایک بار پھر کچھ دوبارہ کرنے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ایسا ہونا اب بہت مشکل نظر آرہا ہے۔‘
سٹرنگز نے سپائڈر مین ٹو کے ہندی/ اردو ورژن کا میوزک دیا تھا، اس کے علاوہ کچھ بولی وڈ اور پاکستانی فلموں کا میوزک بھی کیا مگر اس کے بعد پھر کچھ نہیں کیا۔
اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک پاپ بینڈ تھے اس لیے فلمی میوزک پر اتنی توجہ نہیں دی لیکن اب اگر پاکستانی فلموں میں ان کی ضرورت ہوئی تو وہ اپنی خدمات پیش کریں گے۔
پاکستان میں 90 کی دہائی میں میوزک چینل چارٹس اور پیپسی ٹاپ آف دا پاپ جیسے پروگرامز نے پاپ میوزک کو پروان چڑھایا تھا، اب اس طرح کے پروگرام کیوں نہیں ہوتے؟
اس پر فیصل نے کہا کہ اب سٹریمنگ سروس کا دور ہے اور ٹرینڈنگ کا معاملہ ہوتا ہے البتہ چارٹس کا سلسلہ جاری ہے صرف پلیٹ فارم بدل گیا ہے۔
’میوزک سٹریم سائٹس ہیں، یہی اب میوزک کا مستقبل ہیں اور سپاٹیفائی جدید مسائل کا حل ہے کیونکہ ایک عام موسیقار بھی اپنا گانا یہاں لگا سکتا ہے۔‘
’ریپ میوزک‘ کے بارے میں ایک ائے ہے کہ یہ محروم طبقے کی ترجمانی کرتا ہے، اسے مراعات یافتہ طبقے کو نہیں کرنا چاہیے؟ اس ضمن میں فیصل کا کہنا تھا کہ ریپ میوزک تو بہت عرصے سے چل رہا ہے۔ ’میوزک سب کا حق ہے اسے مراعات یافتہ یا غیر مراعات یافتہ طبقے کی طرح نہیں دیکھنا چاہیے۔‘
اپنے مستقبل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کچھ زیادہ سوچا نہیں جہاں زندگی لے جائے۔