مشرقی معاشرے میں کسی بھی شادی کے موقعے پر دلہن کا لباس خاص اہمیت رکھتا ہے جو کسی زمانے میں لڑکیوں کی مائیں اپنی بیٹیوں کے لباس خود اپنے ہاتھوں سے تیار کیا کرتی تھیں لیکن آج کل کے دور میں ہر چیز ہی بازار سے ’ریڈی میڈ‘ مل جاتی ہے
لیکن سندھ کے بہت سے حصوں میں آج بھی اپنے ہاتھوں سے لباس تیار کرنے کی یہ روایت برقرار ہے اور اگر بات ہو ضلع تھرپارکر کی تو شادی کے موقعے پر آپ کو دلہن کا خوبصورت لباس جسے ’گج‘ کہتے ہیں وہ دیکھنے کو ضرور ملے گا۔
اس لباس کی بنائی اور ٹنکائی دونوں ہی بہت تیکنیکی ہیں۔ ضلع تھرپارکر کے شہرعمرکوٹ میں اس لباس کی تیاری شادی سے مہینوں پہلے شروع ہوجاتی ہے۔
عمرکوٹ میں برسوں سے یہ کام کرنے والی مائی نامی کہتی ہیں کہ اس لباس کی ڈیزائننگ میں ہی کافی وقت لگ جاتا ہے۔
’رنگ کی پڑی بازار سے باآسانی مل جاتی ہے پھر اس میں میڈ ملا کر اس سے کپڑے پر ڈیزائن بنایا جاتا ہے جس کے سوکھنے کے بعد کڑھائی شروع کی جاتی ہے۔‘
مائی نامی کے مطابق ان کے پاس باہر سے آرڈر نہیں آتے بلکہ مقامی سطح پر جو کام ملتا ہے کر لیتے ہیں۔
’اپنے گھر کی لڑکیوں کو کام سیکھا دیا ہے۔ سوٹ کے ڈیزائن میں رنگ چلتا ہے۔ ٹک بھی لگتی ہے جسے آپ شیشہ کہتے ہیں۔۔ مکہ بھی لگتا ہے اور دھاگے بھی چلاتے ہیں، پشم، ڈھیر مکہ یہ سب چلتا ہے اس میں۔‘
ان کے مطابق وہ اس لباس کا کام دو ماہ میں مکمل کر لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ انہیں گھر کا کام کاج بھی کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے بازار میں ملبوسات فروخت والوں سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے کم دام میں لے کر میٹنگ کر کے بڑی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں کا نور گنوا کر یہ کام کیا لیکن اس کے باوجود انہیں وہ معاوضہ نہیں ملتا۔
جس جگہ مائی نامی کپڑے پر ڈیزائننگ اور چھپائی میں مصروف تھیں وہیں گج کی تیاری میں مصروف مائی تلسی کہتی ہیں کہ ’آٹھ سال کی تھی جب یہ کام سیکھا۔ تب سے یہ کام کررہی ہوں۔‘
ساٹھ سالہ مائی تلسی صرف گج ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی کڑھائی کا کام کرتی ہیں تاہم انہیں بھی شکایت ہے کہ انہیں خاطر خواہ معاوضہ نہیں ملتا۔
’مکمل طور پر بات کی جائے تو ایک ہزار کا سامان اور پانچ سو کا کپڑا اور مزدوری کے ہمیں 2500 ملتے ہیں، اگر یہی لباس دوسرے شہروں میں بیچیں تو ہمیں پانچ ہزار بھی مزدوری مل سکتی ہے۔
مائی تلسی بتاتی ہیں کہ جو لباس مارکیٹ والے ان سے 15 ہزارمیں لے جاتے ہیں وہ بازار میں 40 ہزار سے 50 ہزار کا فروخت کرتے ہیں۔ کراچی میں بھی ایک نمائش لگی تھی جس میں ان سے گج لے کر گئے تھے اور وہاں 50 ہزار کا بیچا لیکن انہیں 20 ہزار دیے تھے۔
انہیں حکومت سے شکایت ہے کہ وہ ان جیسے دیگر ہنر مندوں کی پذیرائی نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر حکومت ان جیسے ہنر مندوں کو ثقافتی نمائشوں میں مفت سٹالز دے تو وہ بھی بہتر معاوضہ کما سکتی ہیں۔