یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
اسرائیلی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی نمائندہ انتہا پسند مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے رکنِ کنیسٹ نے گذشتہ ہفتے پولیس کی بھاری نفری کے حصار میں مسجد اقصیٰ (قبلہ اول) کے صحن پر ہلہ بول دیا۔
اس اقدام سے اندازہ ہوا کہ رمضان المبارک کے دوران یہودی آبادکار مسجد اقصیٰ کو ایک مرتبہ پھر میدان جنگ بنانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے ۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر ايتمار بن غفير کے ہاتھوں مسلمانوں کے تیسرے مقدس مقام کی بے حرمتی دراصل صہیونی ریاست کے اس اہم سیاسی سٹریٹیجک ہدف کو رو بہ عمل لانے کی کوشش تھی جس کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس کو یہودی رنگ میں رنگنا ہے۔
بیت المقدس میں، بالعموم اور مسجد اقصیٰ میں بالخصوص، قابض اسرائیلی حکومت کے جارحانہ اقدامات میں ان دنوں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
صہیونی حکومت پہلے ہی مسجد اقصیٰ کو اہالیاں القدس اور استعماری سازش کے تحت لا کر بسائے جانے والے یہودی آبادکاروں کے لیے زمانی اور مکانی تقسیم کے فارمولے پر عمل کر رہی ہے، جس کے مطابق یہودی آبادکار مسجد اقصیٰ میں تلمودی عبادت بجا لاتے ہیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ توسیع پسند عزائم کی حتمی تسکین کے لیے انتہا پسند جتھے مسجد اقصیٰ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں اور صہیونی سیاسی قائدین کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں در اندازی کے واقعات میں خطرناک حد تک تیزی کے بعد قبلہ اول کی یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان زمانی اور مکانی تقسیم کی اپیلیں بھی زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل کی متعدد جماعتیں اس نکتے کا پرچار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اسرائیل کی نسل پرست ریاست مسجد اقصیٰ میں بڑھتی ہوئی در اندازی کی کارروائیوں سے اس بنا پر اغماض برت رہی ہے تاکہ یہودیوں کو قبلہ اول میں تلمودی عبادات ادا کرنے کا موقع ملتا رہے۔ آئے روز ہونے والی ان کارروائیوں کو صہیونی کرتا دھرتا مسجد کی تقسیم کے مطالبے کے حق میں بطور دلیل استعمال کرتے ہیں۔
ماضی میں دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے کے تاریخی شہر الخلیل (ہیبرون) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے موسوم مسجد ابراہیمی کو ایسی ہی پے در پے در اندازیوں کے نتیجے میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مکانی اور زمانی طور پر تقسیم کیا جا چکا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل اس قلیل مدتی ہدف کی تکمیل پر اکتفا نہیں کرے گا کیونکہ اسرائیلی قیادت اور انتہا پسند یہودی آباد کار القدس کے احاطے کے اندر واقع مسلمانوں کے تمام مقدس مقامات کو مسمار کر کے ان کی جگہ اپنا فرضی ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم کے مطالبات نئے نہیں۔ یہ مطالبات 1967 میں مشرقی بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے اور بعد ازاں اسے اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کی کارروائی کے وقت سے جاری ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست میں ضم کیا جانا قانون کی خلاف ورزی ہے کیونکہ غصب شدہ علاقے کو کوئی ملک اپنی ریاست میں ضم نہیں کر سکتا۔
مسجد اقصیٰ کی زمانی و مکانی تقسیم کے مطالبے کے حق میں ملک کی سیاسی، مذہبی، فوجی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انتخابات کے دنوں میں اسی اہم نکتے کو سیاسی جماعتوں کے منشور اور انتخابی جلسوں میں انتہا پسند نعروں کی گونج میں ووٹروں کے سامنے بیان کیا جاتا ہے تاکہ مذہبی جذبات کو ابھار کر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔
مسجد اقصیٰ پر سب سے زیادہ تشویش ناک حملہ 11 جولائی 1971 کو بیتار نامی تحریک سے تعلق رکھنے والے 12 نوجوانوں نے کیا۔
انہوں نے ایک ایسے وقت میں مسجد اقصیٰ کے صحن میں یہودی عبادت ادا کرنے کی کوشش کی جب یہودی مذہبی پیشواؤں نے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخلے پر رضاکارانہ طور پر پابندی لگا رکھی تھی۔
مسجد الاقصیٰ کے تقدس پامالی کی سب سے زیادہ خطرناک در اندازی 28 ستمبر 2000 کو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی لیکوڈ پارٹی کے رہنما ارئیل شیرون نے کی جب وہ درجنوں پولیس اور فوجی اہلکاروں کے حصار میں مسجد اقصی میں داخل ہوا۔ اس اشتعال انگیز کارروائی سے ’انتفاضہ الاقصیٰ‘ کو ہوا ملی جس میں آگے چل کر سیکڑوں فلسطینی اور اسرائیلی لقمہ اجل بنے۔
2009 مسجد اقصیٰ میں ہونے والی در اندازیوں کے حوالے سے سیاہ ترین برس تھا جس یہودی آباد کاروں نے قبلہ اول کی افسوس ناک بے حرمتی کا اپنا ہی سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالا۔
گذشتہ برس رمضان المبارک (مئی) کے موقعے پر بھی قابض اسرائیلی پولیس اور فوج کے حفاظتی حصار میں انتہا پسند یہودی آباد کار مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کرتے مسجد کے صحن میں داخل ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اقدام نے فلسطینیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا۔ انتفاضہ کا یہ شرارہ فلسطین کے طول وعرض میں پھیل گیا۔ اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔
مسجد اقصیٰ پر ايتمار بن غفير کا حملہ اسرائیلی سیاسی قیادت، حجوں یا سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کا پہلا اور آخری حملہ نہیں۔
تاہم بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں ايتمار بن غفیر کی جانب سے کی جانے والی دراندازی بائیڈن انتظامیہ اور اسرائیل کے دوسرے مغربی اتحادیوں کی روایتی اسرائیل نوازی کا فائدہ اٹھانے کے لیے عجلت میں کی جانے والی کارروائی تھی۔
ایسا کرتے وقت انہیں یقین تھا کہ فلسطینیوں کی صفوں میں شرمناک تقسیم سے انہیں بالواسطہ طور پر فائدہ پہنچے گا۔ فلسطین کو صہیونی قبضے میں لینے سے روکنے والا کوئی ہاتھ باقی نہیں ہو گا اور اسرائیل مقدس شہر کے تمام شعبوں پر یہودی چھاپ نمایاں کر لیں گے۔
غیر قانونی یہودی آبادکاروں اور صہیونی استعماریوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے متبرک مقام مسجد اقصیٰ کی پامالی اور مکمل کنٹرول اسرائیل کی تمام سیاسی جماعتوں اور یکے بعد دیگرے بننے والی سیاسی حکومتوں کا ایسا مشترکہ ایجنڈا ہے جسے وہ تمام تر باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم اب نعرہ نہیں بلکہ بیت المقدس پر مکمل کنڑول کے ابتدایئے کے طور پر اس پر کام جاری ہے، جس کا منتہی حرمین شریفین کے بعد مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام پر مکمل یہودی کنٹرول ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس کی حالیہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ عرب اور اسلامی دنیا بین الاقوامی برادری پر دباؤ ڈالے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک قراردار منظور کرائے۔
قرارداد میں اسرائیل سمیت تمام رکن ملکوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی تقسیم رکوائیں اور بیت المقدس کی ہیئت میں تبدیلی سے اسرائیل کو باز رکھا جائے۔
اس قرارداد کی منظوری سے بیت المقدس کی عرب اور اسلامی شناخت نمایاں ہو گی اور مسجد اقصیٰ کو درپیش خطرات سے بھی دنیا بہتر طور پر آگاہ ہو سکے گی۔
آج ایک مرتبہ پھر رمضان کی رحمتیں ہم پر سایہ فگن ہیں، ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس کو ’یہودیانے‘ کے لیے جاری کارروائیاں ہمیں کسی نئی انتفاضہ کی نوید تو نہیں سنا رہیں؟
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا صروری نہیں۔