اس وقت ملک جاری سیاسی رسہ کشی سے بہت سے اصل مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں، جس کی ایک مثال خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پولنگ کے دوران ووٹروں اور حصوصاً خواتین پیش آنے والی سخت مشکلات ہیں۔
میڈیا کی توجہ اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والی ہلچل پر مرکوز رہی اس لیے یہ مسائل بری طرح سے نظر انداز ہو گئے۔ ایسے میں کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اگلے بلدیاتی انتخابات میں پولنگ کے دوران ان مسائل کے خاتمے کے لیے پہلے سے تدارک کے اقدامات لیے جا چکے ہوں؟
اکثریتی جماعتوں اور متعلقہ اداروں نے بلدیاتی انتخابات میں صرف ہار اور جیت کی حد تک دلچسپی لی۔ ایسے میں ان انتخابات کے دوران ان مشکلات اور رکاوٹوں پر کسی نے کان نہیں دھرا۔
خواتین ویسے بھی ہمارے سیاسی نظام میں ابھی تک کوئی خاص وقعت نہیں رکھتیں، ہاں اب یہ الگ بات ہے کہ بحیثیت ووٹر سیاسی جماعتوں کو اب اس بات کا اندازہ ہونا شروع ہو گیا ہے کہ جیت کی خاطر ان کے لیے خواتین کا ووٹ کتنا اہم ہے۔
لیکن بات صرف اس اہمیت کی احساس کی نہیں بلکہ ان سیاسی جماعتوں کو یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ خواتین ووٹروں کو موبلائز کرنا اور پولنگ کے دن سے پہلے ووٹ دینے کے عمل کی مکمل تربیت کے بندوبست کے ساتھ ساتھ علحیدہ خواتین پولنگ سٹیشنوں کا قیام، وہاں پر پانی اور واش روم کی سہولیات کی فراہمی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ الیکشن کمیشن کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
بلدیاتی الیکشن کے دن لوئر دیر میں تین چار پولنگ سٹیشنوں پر میرے ذاتی مشاہدے میں آیا کہ کہ اکثر خواتین کو بیلٹ پیپرز کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔
اور اکثر کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ہر خاتون کو بحیثیت ووٹر پانچ سے چھ بیلٹ پیپرز کا استعمال کرنا ہو گا۔
شدید گرمی میں پنکھے کا انتظام تھا نہ پینے کے پانی کا کوئی بندوبست۔ پولنگ سٹیشنوں کی حالت زار کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ شاید یہ صرف خانہ پری کے انتخابات ہیں۔
میرے تجزیے کے مطابق ہر پولنگ سٹیشن پر کم از کم دس فیصد خواتین کا ووٹ ضرور ضائع ہوا ہو گا، کیونکہ اکثریت خواتین کو یہ تک علم نہیں تھا کہ بیلٹ پیپر پر انگوٹھا نہیں بلکہ مہر لگانی ہے۔
اس پورے مشاہدے سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنی خواتین ووٹر کمیونٹی کو اس بارے میں کسی قسم کی تربیت فراہم کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مائنڈ سیٹ یہ بنا ہوا ہے کہ یہ کام این جی اوز کا ہے، سیاسی جماعتوں کا نہیں۔
ہمارے ہاں خواتین ووٹروں کو انہی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سے سیاسی عمل سے دور رکھا ہے، لہٰذا یہ اب انہی کی ذمہ داری ہے کہ یہ ان خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت ممکن بنانے کے لیے ان کی آگہی اور تربیت کی ذمہ داری بھی اٹھائیں۔
دوسرا اہم مسئلہ جو پولنگ کے دن میں نے نوٹ کیا اور کافی علاقوں سے اور لوگوں سے بھی یہ رائے سنی کہ خواتین کے لیے علیحدہ پولنگ سٹیشن نہ صرف ناکافی تھے بلکہ جتنے بھی پولنگ سٹیشن تھے وہاں پر خواتین عملہ انتہائی کم تھا۔
ایک ایک پولنگ افیسر دو دو بیلٹ پیپرز پُر کر کے ووٹروں کو دیتی تھی جو بہت وقت طلب کام تھا۔ ایسے میں اکثر ووٹر خواتین کو گلہ رہا کہ وہ ووٹ کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑی نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کو گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے گھر جانے کی جلدی بھی ہوتی ہے۔
اوپر سے شدید گرمی میں پنکھے کا انتظام تھا نہ پینے کے پانی کا کوئی بندوبست۔ پولنگ کے دن پولنگ سٹیشنوں کی حالت زار کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ شاید یہ صرٖف خانہ پری کے انتخابات ہیں جس کا اہتمام سنجیدگی سے کیا ہی نہیں گیا۔
فافین کے اعداد وشمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے تحت شمالی و جنوبی وزیرستان، کرم، اورکزئی، ایبٹ آباد اور مانسہرہ سمیت 18 اضلاع کی 65 تحصیلوں میں انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔
دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات بھی بلاشبہ ایک پیچیدہ اور بڑے پیمانے پر منعقد ہونے والے انتخابی مشق کہلائی جا سکتی ہے جس میں 6,170 پولنگ سٹیشنوں (3,951 مشترکہ، 1,151 مرد اور 1,068 خواتین) کے انتظام کے لیے 72 ہزار سے زیادہ انتخابی اہلکار تعینات کیے گئے تھے جن میں 16,509 پولنگ بوتھ، 927 مردوں اور 291 خواتین کے پولنگ بوتھ شامل تھے۔
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا وہ پہلا صوبہ بن گیا ہے جس نے آرٹیکل 140 A(1) کے تحت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے حکمرانی کے عمل میں تیسرے درجے کی تشکیل کی ہے جس میں کسانوں، مزدوروں اور خواتین جیسے پسماندہ طبقات سمیت مقامی نمائندوں کو نمائندگی فراہم کی گئی ہے۔
49 تحصیلوں میں دستیاب صنفی تفریق کے اعداد و شمار کے مطابق، خواتین کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد رہا جبکہ 41 فیصد مردوں کے ٹرن آؤٹ کے ساتھ ان تحصیلوں میں سے کسی نے بھی خواتین کا ٹرن آؤٹ کل پول شدہ ووٹوں کے 10 فیصد سے کم نہیں بتایا گیا۔ سماجی ادارے فافین کی رپورٹوں کے مطابق بحرین، خوازہ خیلہ، بازئی (سوات)، مارتونگ اور چکیسر (شانگلہ) تحصیلوں کے ذمہ دار ریٹرننگ آفیسرز (ROs) نے فارم۔ XIX (گنتی کے نتائج کے عارضی مجموعی بیان) پر ڈالے گئے ووٹوں کا الگ سے صنفی ڈیٹا فراہم نہیں کیا، حالانکہ الیکشن کمیشن کے ایکٹ کے مطابق ڈالے گئے ووٹوں کا صنفی جداگانہ ڈیٹا فراہم کرنا لازم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عام نشستوں پر امیدواروں کی حیثیت سے خواتین کی شرکت تشویش کا باعث رہا۔ تحصیل چیئرمین کے لیے جنرل نشستوں پر صرف 33 خواتین نے حصہ لیا، جب کہ سوات اور ایبٹ آباد میں میئر کی دو نشستوں میں سے کسی بھی خاتون امیدوار نے مقابلہ نہیں کیا۔
تشویش کا ایک اور نکتہ لوکل گورنمنٹ کی تقریباً 10 فیصد نشستوں پر بلا مقابلہ انتخاب رہا، جس کا مطلب ہے کہ مناسب تعداد میں ان نشستوں پر کاغذات ہی جمع نہیں ہوئے۔
کل نشستوں میں، 351 (چھ فیصد) جنرل نشستیں، 533 (29 فیصد) خواتین کی مخصوص نشستیں، 151 (آٹھ فیصد) کسانوں/ مزدوروں کی مخصوص نشستیں، 233 (13 فیصد) نوجوانوں کی مخصوص نشستیں اور 50 (تین فیصد) غیر مسلم مخصوص نشستیں شامل تھیں۔
البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب انتخابی قانون میں معذور افراد، اقلیتوں اور خواجہ سراؤں سمیت دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ خواتین کی انتخابی اور سیاسی شرکت کو بڑھانے کے لیے مخصوص دفعات شامل ہیں۔ اس میں خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کی دفعات کے علاوہ، قانون انتخابی عہدیداروں سے یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ وہ معذور ووٹروں کو اپنی پسند کے ساتھی کو خفیہ سکرین کے پیچھے لے جانے کی اجازت دیں تاکہ وہ اپنے بیلٹ پر نشان لگانے میں ان کی مدد کر سکیں۔
مبصرین نے مشاہدہ کیے گئے پولنگ سٹیشنوں میں سے 13 فیصد پولنگ سٹیشنوں سے رپورٹ کیا جہاں پی آر اوز نے ایسے افراد کی علیحدہ فہرست تیار کی جنہوں نے معذور ووٹروں کو ووٹ ڈالنے میں مدد فراہم کی۔
39 سٹی اور تحصیل کونسلوں میں جنرل نشستوں کے لیے 7,012 امیدواروں میں سے صرف 33 (ایک فیصد سے کم) خواتین تھیں۔ کچھ مقامات پر، کمیونٹی رہنماؤں اور/یا امیدواروں کے درمیان معاہدے کے ذریعے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ فافین کے مبصرین نے بٹگرام میں دو ویلج کونسلوں سے خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی کے دو واقعات کی اطلاع دی۔
اس کی تحقیقات کی علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صنفی تقسیم کے اندارج کو یقینی بنائے کیوں کہ الیکشنز ایکٹ 2017 کے مطابق اگر کسی جگہ خواتین کا ٹرن آؤٹ دس فیصد سے کم ہے تو الیکشن کمیشن اس بات کا جائزہ لے سکتا ہے کہ کہیں خواتین ووٹروں کو کسی معاہدے کے ذریعے ووٹ ڈالنے سےتو نہیں روکا گیا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن متعلقہ پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ یا پورے حلقے میں انتخابات کو کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
آخر میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گی کہ اج تک انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جتنا کام کیا گیا ہے اس میں ابھی تک بلدیاتی انتخات سے متعلقہ امور کو سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔
ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے کہ سیاسی عمل میں عام خواتین کی شرکت کو ممکن اور موثر بنانے کے لیے بلدیاتی انتخابات خاص اہمیت رکھتے ہیں ورنہ مین سٹریم سیاست میں تو ایک عام خاتون کو آگے بڑھنا آج بھی محال ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت انے والے دنوں میں انتخابی اصلاحات کے عمل میں بلدیاتی انتخات سے متعلقہ امور کو خصوصی توجہ دے۔