حالات ایسے ہیں کہ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔۔۔ خطرہ بہرحال موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو شہباز شریف پوچھیں مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔۔۔ اور مُڑ کر دیکھیں تو کوئی نظر نہ آئے۔
عمومی طور پر ہر نئی آنے والی حکومت کے لیے ابتدائی سو دنوں کا ایک ہنی مون پیریڈ یا جسے آپ گریس پیریڈ بھی کہہ لیں، موجود ہوتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں غالباً شہباز شریف کی واحد حکومت ہے جسے یہ لگژری حاصل نہیں اور حلف اٹھانے تک تودور کی بات، اس حکومت کی سکروٹنی قومی اسمبلی میں شہباز شریف کے وزیراعظم کا الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز نے اُسی دن قومی اسمبلی میں بطور وزیراعظم اپنی پہلی تقریر میں عوام کو مایوس نہیں کیا اور عوامی فلاحی روڈ میپ دینے کے ساتھ ساتھ اپنا بھرپور حکومتی پلان بھی پاکستان کے سامنے رکھ دیا جس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اس بار آنے والے کی تیاری صرف تقریر کی حد تک نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات بھی مکمل ہیں۔
لیکن شہباز شریف کے سامنے خصوصی اور متحدہ اپوزیشن کے سامنے عمومی طور پر چیلنج صرف ملکی حالات ٹھیک کرنا، معیشت کی بہتری اور مہنگائی سے عوام کو ریلیف دینا ہی نہیں ہے۔ سیاسی اعتبار سے عمران خان کا مقابلہ کرنا، جلد الیکشن کے مطالبے کو ہینڈل کرنا، مخلوط حکومت کی تشکیل اور پھر طویل عرصے تک اسے برقرار رکھنا یہ سب ایسے چیلنجز ہیں کہ قدم ذرا سا بھی سِرکا تو گہری کھائی میں گرنے کے خطرات موجود ہیں۔
تاوقتِ تحریر تو چار روز گزرنے کے باوجود کابینہ کی تشکیل عمل میں نہیں آ سکی جس میں بظاہر درپیش رکاوٹیں تو یہ ہیں کہ وزارتوں کی تقسیم کیسے ہو، کون سی جماعت کتنی اور کون کون سی وزارتیں حاصل کرے۔
شہباز شریف کے لیےایک اور چیلنج نوازشریف کی واپسی کا بھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس ایک نکتے پر فی الحال نہ تو واضح ہاں ہے اور نہ ہی واضح انکار۔ لیکن سیاسی حالات ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں اسٹیبلشمنٹ کی منظوری سے زیادہ نوازشریف واپسی کا قانونی اوراخلاقی جواز زیادہ وزن کا حامل ہے۔
اگر نوازشریف فوری وطن واپس آتے ہیں تو جیل جائے بغیر چارہ نہیں جو ظاہر ہے ن لیگ کے لیےکسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اگر واپسی کی صورت میں جیل نہیں بھیجے جاتے تو بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
اِسی تناظر میں مسلم لیگ ن کی خواہش اور کوشش ہے کہ قانون و انصاف کی وزارت انہی کے پاس رہے تاکہ اس مسئلے کو بہتر انداز سے حل کیا جا سکے۔ لیکن جہاں تک میری اطلاعات اور تجزیہ ہے، فوری الیکشن ہونے کی صورت میں عنقریب نوازشریف کی واپسی ممکن نہیں ہو سکتی۔
اس کے لیے شہبازشریف کو ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت درپیش رہے گی۔ عمران خان کے فوری الیکشن کےمطالبے سے نمٹنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے لیے قلیل مدت سٹریٹیجی کے طور پر فی الحال تو شہباز حکومت جمع مسلم لیگ ن کو تحریکِ انصاف کو انگیج رکھنا ہو گا۔
اس انگیجمنٹ کے نتیجے میں وقت حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن وقت بہرحال اگست، ستمبرتک ہی موزوں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے پہلے ہی حالات کوئی غیر متوقع، انہونی یا خطرناک موڑ لے لیں جس کے لیے شہبازشریف کو ہمہ وقت تیار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت رہے گی۔
اس وقت عمران خان اور ان کے سائے میں پوشیدہ قوتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ شہبازشریف کو بطور وزیراعظم چلنے نہ دیا جائے اور ناکام بنا دیا جائے۔ اس کے لیے ہرقسم کا حربہ استعمال کرنے کا پلان بھی تیار کیا جا چکا ہے۔ یہ پلان کہاں اور کن کن کے درمیان طے ہوا ہے، شاید آئندہ کے کسی کالم میں اسے تحریر کردوں، لیکن بظاہر جس قسم کی سپورٹ وزیراعظم شہباز کے لیے موجود ہے، مسائل کا آغاز بھی اندرون سے ہی ہو سکتا ہے۔
چند روزقبل کچھ محترم دوستوں کے ساتھ حالاتِ حاضرہ پر نشست ہوئی تو ایک انتہائی باخبر دوست نے بڑا دلچسپ جملہ پھینکا کہ عمران خان سے بھی پہلے اسٹیبلشمنٹ کی پہلی محبت تو ہمیشہ سے شہبازشریف ہی رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ والی محبت کتنا عرصہ برقراررہتی ہے۔ ویسے جہاں محبت ہو وہاں ایک ولن کا ہونا لازم و ملزوم ہے اور اس معاملے میں بھی ولن پردے کے سامنے اور پسِ پردہ ہر قسم کے سازشی تانے بانے بُننے میں مسلسل مصروفِ عمل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسٹیبلشمنٹ کی ’شہبازی محبت‘ کا تذکرہ چل ہی نکلا ہےتو یہ واقعہ بھی آن ریکارڈ آ ہی جائے کہ جنرل مشرف جیسا شریف فیملی کے لیے کٹر مخالف بھی شہبازشریف کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا معترف اور گرویدہ تھا اور اس بات کا اعتراف پنجاب دورے کے دوران کئی بار گورنر پنجاب خالد مقبول کے سامنے بھی کیا گیا جس کے کئی چشم دید گواہ بھی موجود ہیں۔
اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تو کسی کو جھجھک اور ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ بطور ایک منتظم شہباز شریف کی کامیابیاں پوری دنیا تسلیم کرتی ہے، انہیں نہ صرف کام کرنے کا طریقہ بلکہ دوسروں سے کام کروانے اور کام نکلوانے کا فن بھی آتا ہے اور جس ’جِنّاتی سپیڈ‘ جسے ’شہباز سپیڈ‘ یا اب ’پاکستان سپیڈ‘ کا نام بھی دے دیا جائے؛ سےحکومتی معاملات کو چلایا جاتا ہے آج پاکستان کو اسی کی اشد ضرورت ہے۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان شہبازشریف سے نالاں ہیں۔ عمران خان نے بھرپور کوشش سے ایک ایسا بیانیہ اور تاثر تشکیل دے رکھا تھا جس کے مطابق ان سے قبل آنے والے اور ان کی حریف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تمام وزرائے اعظم سب نکمّے، نااہل اور چور ڈاکو تھے۔ اس بیانیے اور تاثر کی تشکیل میں عمران خان نے بلاشبہ انتہائی کمال کی مہارت اور محنت بروئے کار لائی تھی۔
شہبازشریف کے وزیراعظم بن جانے کی صورت میں اس مکمل بیانیے کا دھڑن تختہ ہو جانا تھا جب کارکردگی کی صورت میں حقائق عوام کے سامنے آ جاتے۔ اسی لیے عمران خان اور ان کے سائے میں پوشیدہ قوتوں کی بھرپور کوشش ہو گی کہ شہباز شریف کو بطوروزیراعظم چلنے نہ دیا جائے اور ملک میں انتشار کی ایسی فضا کو مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا جائے کہ حکومت کے پاس گھٹنے ٹیک دینےکے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو۔
انہی تمام وجوہات کی بِنا پر وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے ایک ایسا میدان ہے جہاں انہیں چومکھی لڑائی لڑنی ہے اور بظاہرسامنے موجود چیلنجز کے ساتھ ساتھ چند خفیہ حملوں سے بھی نمٹنا ہو گا جن میں سے عین ممکن ہے کوئی ایک مہلک بھی ثابت ہونے کی طاقت رکھتا ہو۔
فی الحال تو زیادہ توجہ عوام کو ریلیف دینے پر ہی مرکوز رکھنی ہو گی جس دوران بجٹ تیاری کا کڑا مرحلہ بھی درپیش ہو گا۔ وزیراعظم شہباز عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو گئے تو یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی بھی ہو گی اور یہی ان کے لیے اب سے بڑا سیاسی خطرہ بھی بن کر سامنے آئے گا جس کی بدولت حکومت گرانے کی کوشش اور سازش مزید تیز کر دی جائے گی۔
دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی شہباز حکومت کے لیے آنے والا ہر دن نئے خطرات سے تعبیر ہو گا اس لیے جس قدر جلدہو کابینہ کی تشکیل تکمیل تک پہنچنا اور حکومت کی مضبوطی کے لیے تمام اقدامات کیے جانا طویل مدتی استحکام کے لیے ضامن ہو گا وگرنہ خطرہ تو بہرحال موجود ہے۔
کہیں ایسا نہ ہو شہباز شریف پوچھیں مجھے دھکا کس نے دیا تھا، اور مُڑ کر دیکھیں تو کوئی نظر نہ آئے۔