پاکستان کے قبائلی اضلاع جنوبی و شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی سکیورٹی فورسز پر حملے میں تیزی کے بعد پاک افغان سرحد پر حالات کشیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ حکام نے افغان سرحد پر واقعے تجارتی گزرگاہ انگور اڈہ کو ہر قسم کی آمدو رفت کے لیے بند کر دیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر معراج خالد نے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں کشیدگی کے پیش نظر دس روز کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ پہلے ہی کر رکھا ہے۔ اس حکم کے تحت وانا سب ڈویژن میں ہر قسم کے جلسے جلوسوں اور لوگوں کے اکٹھے ہونے پر پابندی ہے لیکن پھر گذشتہ روز یعنی اتوار کو لوگ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئے اور انہوں نے وانا کیمپ کے سامنے دھرنا دیا۔
دھرنے سے پہلے وانا بازار کے قریب نامعلوم افراد نے سکیورٹی چیک پوسٹ کے لیے پانی لے جانے والے واٹر ٹینکر کو بارودی سرنگ سے اڑا دیا گیا۔ اس سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تھا البتہ ٹینکر کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سکیورٹی فورسز اور پولیس نے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے وانا بازار کو زبردستی بند کر دیا۔
وانا بازار اور انگور اڈہ گیٹ کی بندش کے خاتمے کے مطالبہ پر سیاسی اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں کی قیادت میں سینکڑوں لوگ گھروں سے نکل آئے اور وانا کیمپ کے سامنے دھرنا دیا۔ یہ احتجاج سات گھنٹوں تک جاری رہنے کے بعد مقامی انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرت کے نتیجے میں وانا بازار کھول دیا گیا جس کے بعد دھرنا بھی ختم کر دیا گیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما آیاز وزیر نے بتایا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن دہشت گردی کے نام پر کاروبار کو تباہ کرنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیر کو انگور اڈہ گیٹ کے حوالے سے حکومت کے ساتھ وانا سکاوٹس کیمپ میں ایک گرینڈ جرگے ہوگا جس کے بعد معلوم ہوگا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔
پاک افغان تاجر مقرب خان نے بتایا کہ گذشتہ ایک ہفتے سے انگور اڈہ گیٹ بند ہے جس کے بعد سے دونوں اطراف میوہ جات اور سبزیوں کی سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئی ہیں جس سے اکثر مال ضائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب انہوں نے پنجاب اور غزنی سے آنے والی گاڑیوں کو رک دیا ہے۔ جب تک راستے بند ہوں گے تب تک وہ مذید گاڑیوں کو لوڈ نہیں کریں گے۔
ڈائریکٹر اطلاعات افغانستان کے مطابق ہفتے کو سورج طلوع ہونے سے پہلے ’پاکستان فوج نے سرحد سے افغانستان کے مشرقی صوبہ کنڑ میں راکٹوں سے حملہ کیا جس میں کم از کم پانچ بچے اور ایک خاتون ہلاک ہو گئے۔‘ بعد ازاں افغانستان حکومت نے پاکستانی سفیر کو طلب کر لیا۔‘ پاکستانی فوجی حکام اس سلسلے میں فوری طور پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں ہوئے۔ اس حملے کے بعد سے سرحد پر کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔
دوسری طرف خوست میں وزیرستان کے متاثرین کیمپ پر حملے کے بعد نہ صرف شدت پسند طالبان غم و غصہ میں ہیں بلکہ دونوں طرف سرحد کے قریب آباد قبائل بھی ناراض نظر آ رہے ہیں۔ مبصرین کے خیال میں جنوبی وزیرستان میں راہ نجات اور شمالی وزیرستان میں ضرب عضب آپریشنوں کی وجہ سے افغانستان میں پناہ لینے والے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور گل بہادر گروپ کے شدت پسند حملے کرسکتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ خوست کے علاقے میں تحریک طالبان پاکستان اور گل بہادر گروپ کے مقامی طالبان کی بمباری سے متاثر ہونے والے قبائل کے مشران سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں اس حملے کا بدلہ لینے پر اتفاق ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بتایا جاتا ہے کہ کونترو سر یعنی کبوتر سر پہاڑ، کور کماند پہاڑ جو افغانستان کی طرف واقع ہے ان دونوں پہاڑی علاقوں میں ایک بڑی تعداد میں تحریک طالبان پاکستان اور گل بہادر گروپ کے مسلح لوگ موجود ہیں جن کو مبینہ طور پر امارات اسلامی افغانستان کی حمایت بھی حاصل ہے۔
دوسری طرف جنوبی و شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز نے افغان سرحد کے قریب مختلف چیک پوسٹوں پر مشکوک لوگوں کی نگرانی شروع کی ہے۔ اب مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے گاڑیوں سے اترا جا رہا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسند جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں جن کے خلاف سکیورٹی فورسز خفیہ اطلاعات پر کارروائی متوقع ہے۔