کراچی کے علاقے میٹھادر میں واقع ایدھی فاؤنڈیشن کے مرکزی دفتر کے باہر لگائے گئے بینرز کے ذریعے جھولوں میں ڈالے گئے بچوں کو گود لینے کے خواہش مند افراد کو اطلاع دی گئی ہے کہ یہ سہولت غیر معینہ مدت کے لیے بند کردی گئی ہے۔
بینر پر لکھا گیا ہے: ’ایدھی میٹھادر مرکز میں زندہ بچے نہیں آرہے ہیں، جس کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے گود لینے والا فارم لینا اور دینا بند کردیا گیا ہے۔‘
اس کا سبب جاننے کے لیے جب ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ماضی میں لوگ اپنے ان چاہے بچے ایدھی کے جھولوں میں ڈال دیتے تھے، جنہیں لاوارث بچوں کو گود لینے میں دلچسپی رکھنے والے خاندانوں کو دے دیا جاتا تھا، مگر اب لوگ اپنے ان چاہے بچے ایدھی جھولوں میں ڈالنے کے بجائے انہیں مار کر پھینکتے ہیں یا پھر مرنے کے لیے کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں فیصل ایدھی نے بتایا: ’ایک وقت تھا جب لوگ اپنے ان چاہے بچوں کو مار کر پھینک دیتے تھے یا انہیں لاوارث چھوڑ دیتے تھے، پھر جب ایدھی فاؤنڈیشن نے پاکستان بھر میں موجود اپنے مراکز کے باہر جھولے لگا کر لوگوں سے درخواست کی کہ ان چاہے نومولود بچوں کو مارنے کی بجائے ان جھولوں میں ڈالیں، تو لوگ ان بچوں کو جھولوں میں ڈالا کرتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا: ’کچھ عرصہ قبل تک ملک بھر میں موجود ہمارے مراکز کے باہر رکھے گئے جھولوں میں آنے والے نومولود زندہ بچوں کی تعداد ہر مہینے 20 کے قریب ہوتی تھی، جنہیں ہم ایک طریقہ کار سے گود لینے میں دلچسپی رکھنے والے خاندانوں کو دے دیتے تھے۔‘
تاہم بقول فیصل ایدھی: ’اب ہمارے تمام مراکز پر مہینے میں ایک یا دو بچے زندہ آتے ہیں، مگر گذشتہ چھ یا سات سالوں سے مردہ بچوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔‘
انہوں نے کراچی میں موجود تمام مراکز کی جانب سے تین مہینے کے دوران اکٹھا کیا گیا ڈیٹا انڈپینڈنٹ اردو سے شیئر کرتے ہوئے بتایا: ’صرف گذشتہ تین مہینوں کے کراچی شہر کے اعداد و شمار دیکھ لیں تو ہر مہینے 25 سے 30 نومولود بچوں کی لاشیں ملی ہیں۔‘
ایدھی کے اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی شہر میں جنوری 2022 میں 14 نومولود لڑکوں اور سات لڑکیوں سمیت 21 لاشیں، فروری میں بھی 14 لڑکوں اور سات لڑکیوں سمیت کل 21 اور مارچ میں 13 لڑکوں اور چار لڑکیوں سمیت کل 17 لاش ملی ہیں۔
فیصل ایدھی کے مطابق نومولود بچوں کی ملنے والی لاشوں میں اکثریت لڑکوں کی ہوتی ہے۔
دوسری جانب کراچی کی چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے پاس بھی پہلے کے مقابلے میں مردہ بچے زیادہ آرہے ہیں۔
ترجمان چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن چوہدری شاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دو مہینے پہلے تک ماضی کے مقابلے میں زندہ بچوں کی جگہ نوزائیدہ بچوں کی زیادہ لاشیں مل رہی ہیں۔ ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ جنوری سے اب تک چھیپا کو نوزائیدہ بچوں کی 13 لاشیں ملی ہیں جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور اس عرصے میں صرف ایک زندہ بچہ چھیپا جھولے میں آیا۔‘
بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی نئی سربراہ صبا ایدھی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر کسی خاندان میں پیدا ہونے والا بچہ بظاہر ذہنی یا جسمانی طور پر معذور ہو تو کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے ایسا بچہ پالنا مشکل ہوگا اور وہ اسے ایدھی کے جھولے میں ڈال دیتے تھے۔ ایسے بچوں کو گود لینے میں دلچسپی رکھنے والے لوگ بھی نہیں اپناتے اور یہ بچے ایدھی یتیم خانے میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
صبا ایدھی کے مطابق: ’پاکستان بھر میں ایدھی یتیم خانے میں چار ہزار سے زائد یتیم مقیم ہیں، جن میں کچھ ایسے بچے بھی ہیں جو پیدائشی طور پر ذہنی یا جسمانی طور پر معذور تھے اور جنہیں ایدھی کے جھولے میں ڈال دیا گیا تھا۔‘
’اس کے علاوہ ہر عمر اور جنس کے لاوارث اور یتیم افراد ایدھی ہوم میں مقیم ہیں۔ صرف کراچی شہر کے مراکز میں اس وقت تین ہزار لاوارث اور یتیم افراد مقیم ہیں۔‘
فیصل ایدھی کے مطابق معاشرے میں بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث وہ انتہائی غریب خاندان جو بچے پال نہیں سکتے، وہ بھی اپنے بچوں کو جھولوں میں ڈال دیتے ہیں۔
فیصل ایدھی سے جب پوچھا گیا کہ اب زندہ بچوں کی جگہ مردہ بچے کیوں آرہے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا: ’مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں مردہ بچے آرہے ہیں۔‘
لاوارث بچوں کو گود لینے کا طریقہ کار کیا ہے؟
ایدھی فاؤنڈیشن کے پاکستان بھر میں 300 سے زائد مراکز ہیں، جن کے باہر جھولے رکھے ہوئے ہیں۔ صبا ایدھی کے مطابق پاکستان کے کسی بھی مرکز پر رکھے ہوئے جھولے میں جب نیا بچہ آتا ہے تو اسے کراچی میں واقع میٹھادر مرکز پہنچایا جاتا ہے، جو کہ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کا مرکزی دفتر ہے۔
ماضی میں اسی مرکز پر نوزائیدہ بچوں کو گود لینے میں دلچسپی رکھنے والے خاندانوں کو اڈاپشن فارم دیا جاتا تھا۔ اس فارم میں بچہ گود لینے کے اسباب، خاندان کی مالی حیثیت وغیرہ سمیت بنیادی سوالات پوچھے جاتے تھے۔ جب وہ خاندان فارم پُر کرکے جمع کرانے آتا تو بلقیس ایدھی ان کا باقاعدہ انٹرویو لے کر یہ اندازہ لگاتیں کہ ان کو کوئی بچہ دینا ہے یا نہیں۔ جس کے بعد ان کی درخواست کو ویٹنگ لسٹ میں ڈال دیا جاتا۔
صبا ایدھی کے مطابق: ’عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جھولے میں آنے والے بچوں کو ایدھی ہوم میں پال پوس کر بڑا کرنے کے بعد کسی کو گود دیا جاتا ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی بچہ آتا تھا تو ویٹنگ لسٹ دیکھ کر کسی ایک خاندان کو اسی وقت بتایا جاتا کہ جلد از جلد آکر بچہ لے جائیں۔ جیسے ہی وہ خاندان آتا تو بچہ ان کو دے دیا جاتا تھا، مگر اب چونکہ نئے بچے نہیں آرہے تو فی الحال اڈاپشن فارم بند ہے۔‘
مرحومہ بلقیس ایدھی نے انڈپینڈنٹ اردو کے اس نامہ نگار کو 2019 میں دیے گئے ایک ویڈیو انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے جھولے میں آنے والے 10 ہزار سے زائد بچوں کو مختلف خاندانوں کو دیا جبکہ فیصل ایدھی کے مطابق ان کے پاس چھہ سے سات ہزار ایسے بچوں کی تمام دستاویزات موجود ہیں۔
فیصل ایدھی کے مطابق: ’عام طور پر گود میں لیے گئے بچے کو پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی بتادیا جاتا ہے کہ وہ گود میں لیا گیا بچہ ہے تاکہ بعد میں جب انہیں پتہ چلے تو وہ زیادہ غصہ نہ کریں۔ ایدھی کی جانب سے مختلف خاندانوں کو دیے گئے بچے پڑھے لکھے اور اچھی پوزیشن پر کام کر رہے ہیں۔‘