پاکستان نے اتوار کو وزیراعظم نریندر مودی کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دورے کو ایک چال قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’تعجب کی بات نہیں کہ بھارتی وزیراعظم بھاری حصار میں مقبوضہ کشمیر کے دورے پر تھے۔‘
بیان کے مطابق: ’مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے بھارتی پالیسیوں کو مسترد کر کے یوم سیاہ منایا۔‘
’پاکستان کشمیریوں کو سلام پیش کرتا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کی ہر ممکن حمایت جاری رکھے گا۔‘
بیان میں دریائے چناب پر ریٹل ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے سنگ بنیاد کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ منصوبہ متنازع رہا ہے۔
’پاکستان بھارتی وزیراعظم کی طرف سے دونوں معاہدوں کے افتتاح کو 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔ بھارت نے اس حوالے سے اپنے معاہدے کی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا۔‘
آج وزیراعظم نریندر مودی نے سخت سکیورٹی میں نئے منصوبوں کا افتتاح تو ضرور کیا، تاہم خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انہوں نے کسی سیاسی وعدے سے گریز کیا۔
بھارتی حکومت کی جانب سے 2019 میں اپنے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے براہ راست مزکزی حکومت کے کنٹرول میں لیے جانے کے بعد نریندر مودی کا اس ہمالیائی خطے کا یہ پہلا دورہ تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق نریندر مودی نے سرنگ اور پن بجلی گھر کے دو منصوبوں کا ورچوئل افتتاح کرنے کے بعد تقریب سے خطاب میں اپنی حکومت کی ترقیاتی کامیابیوں کا ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’2019 کے بعد سے خطے کو ترقی کی اس راہ پر ڈال دیا گیا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی،‘ تاہم انہوں نے علاقے کے لوگوں سے کوئی سیاسی نوعیت کا وعدہ کرنے سے گریز کیا جو چار سال سے منتخب حکومت سے محروم چلے آ رہے ہیں۔
مودی نے بھارت مخالف جذبات کے گڑھ کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’میں وادی کے نوجوانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ انہیں ان مشکلات اور مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جن کا سامنا ان کے والدین اور آباؤ اجداد نے کیا۔‘
مودی کی تقریر اس تقریب کا حصہ تھی جو سالانہ پنچایتی راج یا نچلی سطح پر جمہوریت کا دن منانے کے لیے منعقد کی گئی۔
حکام کے مطابق مقامی کونسلز نچلی سطح پر اختیارات کے حوالے سے نمائندگی کرتی ہیں، لیکن ان کے پاس قانون سازی کا حق نہیں۔
مودی کی تقریر کے لیے جموں کے قریب واقع گاؤں پلی میں مقامی کونسلز کے ہزاروں منتخب عہدے دار جمع ہوئے۔ اس موقعے پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے پورے علاقے میں فوج تعینات تھی۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق تقریب سے خطاب میں نریندرمودی نے مزید کہا کہ ’اس بار جموں و کشمیر میں منایا جانے والا پنچایتی راج کا دن بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔‘
’یہ بات قابل فخر ہے کہ جمہوریت نے نچلی سطح پر جڑیں مضبوط کرلی ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں ملک بھر میں پنچایتوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت تبدیل ہونے کے بعد مودی کے دو سابقہ دورے فوجی کیمپوں میں فوجیوں کے ساتھ ہندو تہوار منانے کے لیے تھے۔ 2019 میں مودی کی حکومت نے خطے کی نیم خود مختار حیثیت اور اس کے علیحدہ آئین کو منسوخ کر دیا تھا۔ علاقے کو دو وفاقی علاقوں لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کرکے ایسا لاک ڈاؤن لگا دیا گیا، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
بھارتی حکومت نے خطے میں زمین خریدنے اور ملازمتوں پر پابندی بھی ختم کر دی تھی۔
اس کے بعد سے خطے میں صورت حال بدستور کشیدہ ہے کیوں کہ حکام نے بہت سے نئے قوانین نافذ کیے ہیں جن سے ناقدین اور علاقے کے لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ اکثریتی مسلم کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرسکتے ہیں۔