ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور محترمہ بےنظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے وزارت خارجہ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔
بلاول بھٹو یا ان کے کسی ترجمان کی طرف سے فی الحال اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں آئی کہ بلاول نے اس عہدے کا انتخاب کیوں کیا، لیکن ایک خیال یہ ہے کہ شاید وہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں جنہوں نے اسی عہدے پر رہ کر اپنا نام اور مقام پیدا کیا۔
دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ وزیرِ خارجہ بنتے وقت بلاول اور ان کے نانا کی عمریں تقریباً برابر ہیں۔ بلاول کی عمر اس وقت 34 برس کے قریب ہے، جب کہ ان کے نانا یہی عہدہ سنبھالتے وقت ان کے تقریباً ہم عمر، یعنی 35 برس کے تھے۔
صرف ذوالفقار علی بھٹو نہیں بلکہ بلاول کی والدہ بےنظیر بھٹو بھی وزارتِ خارجہ میں کام کر چکی ہیں اور اپنے والد کی زندگی میں تاثر عام تھا کہ بھٹو وزارتِ خارجہ کے لیے اپنی صاحبزادی کی تربیت کر رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تاریخ ساز شملہ معاہدے کے وقت بھٹو بےنظیر کو ساتھ لے کر گئے تھے۔
البتہ بلاول اور بھٹو میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ وزیرِ خارجہ بنتے وقت بلاول کے پاس ایک بڑی سیاسی پارٹی، لاکھوں وفادار اور جوشیلے کارکن اور طویل سیاسی ورثہ موجود ہے، جب کہ بھٹو کے پاس 1963 میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی، اور انہوں نے جو کیا، تنِ تنہا اپنے بل بوتے پر کیا۔
اسی لیے آج کے دن یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ بلاول نے یہ عہدہ سنبھال تو لیا ہے مگر ان کے کرشماتی شخصیت کے مالک نانا نے اس عہدے پر جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے تھے، کیا بلاول اس سطح کا کوئی کام کر پائیں گے؟
ایوب خان کی کابینہ میں وزیر
وزارت خارجہ سے بھٹو خاندان کا تعلق بہت پرانا ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے 24 جنوری 1963 کو پاکستان کے وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھالا تھا۔ یہ عہدہ پاکستان کے سابق وزیراعظم اور موجودہ وزیر خارجہ محمد علی بوگرا کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوا تھا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے پاس ان دنوں وزیرِ صنعت تھے، تاہم کچھ ہی دنوں پہلے وہ پاک بھارت وزارتی مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت کے فرائض انجام دے چکے تھے اور وزیر خارجہ محمد علی بوگرا کی علالت کے دنوں میں قومی اسمبلی میں امور خارجہ کی بحث میں بھی ان کی جگہ حصہ لے چکے تھے۔
اقوام متحدہ میں ذوالفقار علی بھٹونے پہلی مرتبہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی ستمبر 1957 میں کی۔ اس وقت اسکندر مرزا پاکستان کے صدر اور حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیراعظم تھے اور نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کی عمر29 برس تھی۔
رشید اخترندوی نے اپنی کتاب ’ذوالفقار علی بھٹو سیاسی سوانح حیات‘ میں لکھا ہے کہ ’اس اجلاس میں انہوں نے جو تقریر کی اس سے ان کی قابلیت کی دھاک پوری جنرل اسمبلی پر بیٹھ گئی ہے اور ارکان اسمبلی گردن اٹھا اٹھا کرانہیں دیکھنے لگے۔‘ بھٹو کی اس تقریر نے آئندہ ملکی اور غیر ملکی سیاست میں ان کا راستہ ہموار کرنے میں بڑی مدد کی۔
مارچ 1958 میں ذوالفقار علی بھٹو نے جنیوا میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی اس کانفرنس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی جو ’سمندر کا قانون‘ کے موضوع پر منعقد ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کانفرنس میں اس موضوع پر پانچ تقاریر کیں جنہیں بے حد سراہا گیا۔
اکتوبر 1958 میں ایوب خان ملک کے صدر بنے تو ذوالفقار علی بھٹو ان کی کابینہ میں بھی شامل رہے، مگر ان کے پاس وزارت تجارت اور وزارت صنعت کے قلمدان رہے۔ سیاسی مبصرین کئی مرتبہ ان کے وزیر خارجہ بننے کی پیش گوئی کر چکے تھے۔ یہ پیش گوئی اس وقت پوری ہوئی جب 23 جنوری 1963 کو پاکستان کے وزیر خارجہ محمد علی بوگرا دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس وقت بھٹو کی عمر 35 برس تھی۔
چین کے ساتھ تعلقات کی بنیاد
بھٹو کا وزارت خارجہ پر فائز ہونا پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم واقعہ تھا اور اس واقعے نے پاکستان کی تاریخ پر بڑے دور رس نتائج مرتب کیے۔ وہ اس عہدے پرجون 1966 تک فائز رہے۔ اس دوران پاکستان کی وزارت خارجہ دنیا بھر کی سیاست کی مرکز نگاہ بن گئی۔
دو مارچ 1963 کو پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور چین کے وزیر خارجہ چن ژی نے بیجنگ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت عوامی جمہوریہ چین کی حکومت نے دو ہزار مربع کلومٹیر کے لگ بھگ علاقہ پاکستان کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس معاہدے کے تحت کے ٹو کی چوٹی پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا اور درہ خنجراب، وادی اوپرانگ اور دروازہ دروان میں سے چھ درے بھی پاکستان کو مل گئے۔
یہ معاہدہ پاک چین دوستی کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا اور اس معاہدے نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
اکتوبر 1963 میں پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیر خارجہ پہلی مرتبہ امریکہ کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر چار اکتوبر کو ان کی ملاقات امریکہ کے جواں سال صدر جان ایف کینیڈی سے بھی ہوئی اور دونوں کے درمیان چین اور بھارت کی جنگ اور بھارت کو امریکی فوجی امداد کے مضمرات پر بھی گفتگو ہوئی۔ بھٹو نے امریکی صدر سے کہا کہ بھارت یہ ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا۔ بھٹو نے کینیڈی سے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ ایک نہ ایک دن تو یہ ہونا ہی ہے۔ کینیڈی نے جواب میں کہا کہ اگر وہ دوسری مدت کے لیے امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو وہ اس مشورے پر غور کریں گے۔
کینیڈی کو چیلنج
بھٹو کے سوانح نگار سٹینلے وولپرٹ نے اپنی کتاب ’زلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’ملاقات کے دوران بھٹو کینیڈی سے بہت متاثر نظر آئے اور اسی طرح کینیڈی کو بھی پاکستان کا یہ جواں سال وزیر خارجہ بہت بھایا۔ بھٹو رخصت ہونے لگے تو کینیڈی نے ان سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا: If you were an American you would be in my cabinet (اگر آپ امریکی ہوتے تو آپ میری کابینہ میں شامل ہوتے)۔
بھٹو نے تیزی سے جواب دیا: Be Careful, Mr. President, if I were an American, I would be in your place (جناب صدر محتاط رہیے، اگر میں امریکی ہوتا تو آپ کی جگہ پر ہوتا)
بھٹو کے اس فقرے پر فریقین نے دل کھول کر قہقہہ لگایا۔
18 فروری 1964 کو عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم جناب چو این لائی پاکستان پہنچے تو ان کا والہانہ خیر مقدم کیا گیا۔
ان کے دورے کا حاصل وہ اعلامیہ تھا جس میں چین نے کشمیر کے سوال پر پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ کشمیریوں کو ان کی خواہشات کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ مشترکہ اعلامیہ صدر ایوب خان اور چو این لائی کے تین روزہ مذاکرات کا نتیجہ تھا اور اس پر پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے چینی ہم منصب مارشل چن ژی نے دستخط کیے تھے۔
اس اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بھارت کو چین کے ساتھ سرحدی تنازع بھی جلد سے جلد طے کرنا چاہیے اور چین کو اقوام متحدہ کا رکن بھی بنایا جانا چاہیے۔
جناب چو این لائی کے اس دورے نے جہاں امریکہ اور بھارت دونوں کو تشویش میں مبتلا کیا وہیں پاکستان کے گوشے گوشے سے عوام نے اس کا خیر مقدم کیا۔ چینی رہنماﺅں کا یہ دورہ پاکستان اور چین کے تعلقات کا ایک اہم موڑ تھا اور اس نے پاکستان اور چین کے آئندہ تعلقات میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
کشمیر کے ساتھ والہانہ لگاؤ
ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ خارجہ کا محور اگر کسی مسئلے کو کہا جا سکتا ہے تو وہ مسئلۂ کشمیر سے ان کی گہری وابستگی اور لگاؤ ہے جسے حل کروانے کے لیے وہ آخر وقت تک کوشاں رہے۔
1964 کی 24 مئی کو ’شیر کشمیر‘ شیخ محمد عبداللہ پاکستان کے دورے پر راولپنڈی پہنچے تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان کا استقبال کرنے والے افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ تھی ان کے رفیق اور دست راست مرزا افضل بیگ بھی ان کے ہمراہ تھے۔
شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی پاکستان آمد کا مقصد مسئلۂ کشمیر کا ایک ایسا حل تلاش کرنا تھا جس پر بھارت، پاکستان اور کشمیر تینوں فریق مطمئن ہوں۔ شیخ محمد عبداللہ نے پاکستان پہنچتے ہی اسی شام صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان سے اس مسئلے پر مذاکرات شروع کر دیے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ اگلے دنوں میں بھی جاری رہا۔ اسی دوران شیخ محمد عبداللہ نے راولپنڈی میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کیا اور ایک پریس کانفرنس بھی منعقد کی جس میں مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کے تلاش کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔
مگر 27 مئی 1964 کو بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی اچانک وفات کی خبر سے مذاکرات کا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور شیخ محمد عبداللہ کو پنڈت نہرو کی آخری رسوم میں شرکت کے لیے بھارت جانا پڑا۔ اس کے بعد وہ پھر کبھی پاکستان نہیں آئے اور یوں مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر جوں کا توں رہ گیا۔
ایران اور ترکی سے تعلقات
ذوالفقار علی بھٹو کے وزارت کے دوران ہی عالم اسلام کے تین بڑے ممالک پاکستان، ایران اور ترکی نے آپس میں انتہائی قریبی تعلقات قائم کر لیے۔
21 جولائی 1964 کو پاکستان کے صدر ایوب خان، ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی اور ترکی کے صدر جمال گرسل نے استنبول میں ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے ’علاقائی تعاون برائے ترقی‘ (آر سی ڈی) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کا مقصد تینوں ممالک کے کروڑوں عوام کی فلاح و بہبود اور ثقافتی، فنی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا تھا۔
جنگ کے دوران
ستمبر 1965 کی جنگ کے دوران پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس جنگ کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ جناب ایس ایم ظفر نے انجام دیا جو ان دنوں پاکستان کے مرکزی وزیر قانون تھے۔
20 ستمبر 1965 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستان اور ہندوستان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ 22 اور 23 ستمبر کی درمیانی شب جنگ بند کر دیں۔ اس مرحلے پر صدر پاکستان نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے روانہ کیا تاکہ وہ سلامتی کونسل کے سامنے پاکستان کا موقف بیان کرسکیں اور اقوام متحدہ کو باور کروائیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیے بغیر جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو 22 ستمبر کو نیویارک پہنچتے ہی فوراً اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے جہاں سلامتی کونسل کا اجلاس جاری تھا۔ اس موقعے پر جناب بھٹو نے بڑی پُراثر تقریر کی۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان پر ایک بڑے ملک نے حملہ کیا ہے اور اس وقت ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی تقریر کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’اپنی بقا کی خاطر اگر ہمیں بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے۔‘
ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ اسی دوران انہیں صدر ایوب خان کا ایک تار لا کر دیا گیا۔ اس تار میں صدر ایوب خان نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس تار کے مندرجات سلامتی کونسل کے ارکان کو پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ان کا ملک جنگ بند کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا پڑے گا ورنہ پاکستان اقوام متحدہ سے الگ ہو جائے گا۔
اگلے روز دنیا کے بہت سے بڑے اخباروں نے ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر کا ذکر کیا۔ 25 اکتوبر 1965 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی خطاب کیا، جس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ اجلاس سے واک آﺅٹ کر گئے۔ یہی وہ تقریر تھی جس کے بعد پانچ نومبر کو سلامتی کونسل نے کشمیر کے سوال پر قرارداد منظور کر لی۔
1965 کو پاک بھارت جنگ کے بعد 10 جنوری 1966 کو پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جو ’معاہدہ تاشقند‘ کے نام سے مشہور ہے۔
اس معاہدے کے لیے پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان تین جنوری 1966 کو روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے۔ ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔
پاکستان اور بھارت کے یہ تاریخی مذاکرات جن میں سوویت یونین نے ثالث کے فرائض انجام دیے، سات دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے شدہ تھا اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہو رہے تھے جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے تھے۔ پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ کشمیر کے ذکر کے بغیر یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو کوئی معاہدہ کیے بغیر واپس لوٹ جانا چاہیے۔
مگر مذاکرات کے آخری ایام میں سوویت وزیر اعظم کوسیجین نے صدر ایوب خان سے مسلسل کئی ملاقاتیں کیں اور انھیں بھارت کے ساتھ کسی نہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے پر رضامند کر لیا۔ یوں 10 جنوری 1966 کو صدر ایوب خان اور وزیر اعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر اپنے دستخط ثبت کر دیے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں پانچ اگست 1965 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔
معاہدہ تاشقند پر دستخط صدر ایوب خان کی سیاسی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ ثابت ہوئے۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بنا پر پاکستانی عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ پاکستانی عوام کا آج تک یہی خیال ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو تاشقند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا اور وہ جنگ جو خود حکومتی دعوﺅں کے مطابق میدان میں جیتی جاچکی تھی، معاہدے کی میز پر ہار دی گئی۔
معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو اور ایوب خان کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر پاکستان نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر کے کشمیر کو ہمیشہ کے لیے بھارت کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ ادھر پاکستانی عوام اور حزب مخالف کے سیاست دانوں کا بھی یہی خیال تھا اور معاہدہ تاشقند کے فقط تین دن بعد 13 جنوری 1966 سے مغربی پاکستان میں معاہدہ تاشقند کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔
ایوب خان سے راہیں الگ
معاہدہ تاشقند پر بھٹو اور ایوب خان کے اختلافات جلد ہی منظر عام پر آنے لگے، حتیٰ کہ 29 جنوری 1966کو ایوب خان نے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے اور بھٹو کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے اور کابینہ میں ردو بدل کی افواہ غلط ہے۔
مگر یہ افواہیں غلط نہیں تھیں۔ ایک جانب بھٹو خود کو ایوب خان کی کابینہ سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسری جانب ایوب خان بھی انہیں فارغ کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔
معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو چند ماہ کابینہ میں شامل رہے لیکن 17 جون 1966 کو حکومت نے یہ اعلان کر ہی دیا کہ صدر پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو خرابی صحت کی بنا پر لمبی رخصت پر جانے کی اجازت دے دی ہے۔
اس خبر سے پاکستان کی سیاسی فضا میں ہلچل مچ گئی۔ بھٹو نے بھی اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی سے بذریعہ ریل گاڑی کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ 22 جون 1966 کو وہ پہلے مرحلے میں لاہور پہنچے جہاں عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ 23 جون کو وہ لاڑکانہ اور 24 جون کو کراچی پہنچے۔ ہر جگہ اور ہر مقام پر بھٹو کا والہانہ استقبال ہوا۔
نیا سیاسی کیریئر
اس پرجوش استقبال سے متاثر ہو کر ہی بھٹو نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر پاکستان کی سیاست اور بھٹو لازم و ملزوم بن گئے۔
1971کی پاک بھارت جنگ کے دوران سات دسمبر صدر یحییٰ خاں نے نور الامین کو وزیر اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ مقرر کیا جس کے اگلے روز ذوالفقار علی بھٹو نیویارک روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
13 دسمبرکو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی نمائندے جارج بش نے ایک قرارداد پیش کی جس میں بھارت اور پاکستان دونوں سے جنگ بند کرنے اور فوجیں واپس بلانے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس موقعے پر پاکستانی وفد کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’پاکستان اپنے ملک پر بھارت کا قبضہ نہیں ہونے دے گا۔ ہم آخری دم تک لڑیں گے۔ میں امن کی بھیک مانگنے نہیں انصاف حاصل کرنے کے لیے سلامتی کونسل میں آیا ہوں۔ اگر سلامتی کونسل نے کوئی کارروائی نہیں کی تو ہم آخری فرد تک جنگ کریں گے۔‘
بھٹو کی یہ پرجوش تقریر قریباً دو گھنٹے تک جاری رہی۔
20 دسمبر 1971 کو ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے وزارت خارجہ بھی اپنے ہی پاس رکھی۔
بےنظیر بھٹو اور وزارتِ خارجہ
1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی دعوت پر 28 جون 1972 کو بھارت کے صوبے ہماچل پردیش کے صدر مقام شملہ پہنچے۔ اس دورے میں ان کی 19 سالہ صاحبزادی بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں، جنہیں وہ مستقبل کی وزیر خارجہ اور وزیراعظم کے عہدے کے لیے تیار کر رہے تھے۔
اس موقع پر رئیس امروہوی نے لکھا:
شملہ مذاکرات تھے تاریخ گیر بھی
پُرعزم بھی لطیف بھی عظمت پذیر بھی
آراستہ تھی محفل صدر و وزیر بھی
تاریخ کی نگاہ میں تھی بےنظیر بھی
چار برس بعد 26 نومبر 1976 کو بے نظیر بھٹو، اوکسفرڈ یونیورسٹی کے مرکز مباحثہ (Debating Centre) کی صدر منتخب ہوئیں۔ اس انتخاب میں بے نظیر بھٹو نے 329 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے قریب ترین حریف صرف 265 ووٹ حاصل کر سکے۔ بے نظیر بھٹو جنوبی ایشیا کی پہلی اور اوکسفرڈ یونیورسٹی کی تاریخ کی تیسری خاتون تھیں جو یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔
جون 1977 میں بے نظیربھٹو برطانیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچیں، جہاں انہیں وزارت خارجہ میں تعینات کیا گیا، لیکن ان کے پاکستان پہنچنے کے دو ہفتے ہی جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد دسمبر 1988 میں بےنظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔ ان کی کابینہ میں فوج کے اصرار پر صاحبزادہ یعقوب علی خان وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 1993 میں انہوں نے یہ منصب سردار آصف احمد علی کو عطا کیا، تاہم دونوں ادوار میں وہ اس عہدے کی براہ راست نگرانی کرتی رہیں۔
اب اس وزارت کا ہما ان کے 33 سالہ صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے سر پر بیٹھا ہے۔ انہوں نے یقیناً سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے مگر اس عہدے کے تاریخی ورثے کو نبھانے کے لیے انہیں کرشماتی کارکردگی دکھانی ہو گی۔