فیصل آباد ٹریفک پولیس نے خواتین کو خود مختار بنانے اور روزمرہ سفر کے دوران درپیش مشکلات کم کرنے کے لیے موٹرسائیکل ڈرائیونگ کی مفت تربیت دینے کا پروگرام شروع کیا ہے۔
اس پروگرام کے تحت خواتین اور لڑکیاں بڑی تعداد میں موٹرسائیکل چلانے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔
ان میں کالج اور یونیورسٹی کی طالبات، دفاتر میں کام کرنے والی خواتین اور گھریلو خواتین بھی شامل ہیں۔
زیر تربیت نورمحمد انصاری انڈسٹریل سکول کی طالبہ انمول فاطمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے انہیں کہیں آنا جانا ہوتا تھا تو اپنے بھائیوں اور والد کو کہنا پڑتا تھا۔
’ان کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ہم تمہیں چھوڑنے جائیں، تمہیں لے کر آئیں۔ میں چاہتی تھی کہ بائیک چلا سکوں تاکہ انہیں تکلیف نہ دینی پڑے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ اس ٹریننگ سے بہت خوش ہیں کیوں کہ دستکاری کے سکول آنے جانے کے وقت انہیں گھر والوں سے یہی سننا پڑتا تھا کہ پڑھائی چھوڑ دو۔
’میرے بابا نے کہا تھا کہ بیٹا ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ صبح صبح اپنے کام پر جانے سے پہلے آپ کو چھوڑ کر آئیں اور پھر ہمیں جاب پر جا کر یہ پریشانی ہوتی ہے کہ آپ واپس کیسے آؤ گی، آپ کے پاس پیسے ہیں؟ آپ کیسے گھر پہنچیں گی؟‘
نورمحمد انصاری انڈسٹریل سکول کے منتظم اور سوشل ویلفیئر سوسائٹی غلام محمد آباد کے جنرل سیکریٹری محمد ارشد قاسمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ٹریفک پولیس فیصل آباد اور ہونڈا موٹرسائیکل کی طرف سے ان کے سکول کا دورہ کرکے طالبات کوموٹرسائیکل ڈرائیونگ سیکھنے کی پیشکش کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا، ’چار روزہ ٹرینگ ٹریفک پولیس کے غلام محمد آباد سینٹر میں مہیا کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ہونڈا موٹرسائیکل والوں کی طرف سے جو فنی تربیت دی گئی ویڈیوز کے ذریعے، انسٹرکٹرز کے ذریعے وہ بہت مثالی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک 30 روپے سے زائد کرایہ ہو گیا ہے تو خواتین کے گھروں میں ان کے بھائی یا والد نہیں ہیں انہیں آنے جانے میں یا بازار سے سودا سلف خریدنے کے لئے نکلنا پڑتا ہے تو وہ رکشے کا کرایہ بھی نہیں دے سکتی ہیں۔
’میں خواتین کو یہ پیغام دوں گا کہ موٹرسائیکل ڈرائیونگ لازمی سیکھیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں آپ اپنے گھر والوں پر بوجھ نہ بنیں۔‘
فیصل آباد ٹریفک پولیس کے پبلک ریلیشنز آفیسر محمد اسماعیل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت اب تک تقریبا 60 خواتین موٹرسائیکل چلانے کی تربیت حاصل کر چکی ہیں اور انہیں لرننگ ڈرائیونگ پرمٹ بھی جاری کیے گئے ہیں۔
ان کے بقول: ’کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی کے لیے جو خواتین کا کردار ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور خواتین کو خود مختار بنانے کے لئے، خاص طور پر جو ورکنگ وومن ہیں ان کو، یہ ایک مثبت اقدام ہے جو ٹریفک پولیس کی جانب سے مختلف کمپنیز کے اشتراک سے کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس فری ٹریننگ پروگرام میں حصہ لینے کی خواہشمند خواتین کے لیے دو شرائط رکھی گئی ہیں کہ ایک تو یہ کہ ان کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے اور دوسرا ان کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنا ہونا ضرور ی ہے تاکہ انہیں لرنر ڈرائیونگ پرمٹ جاری کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں موٹرسائیکل ڈرائیونگ سیکھنے کی خواہشمند خواتین ٹریفک پولیس کی ہیلپ لائن 1915 پر رابطہ کر کے رجسٹریشن کروا سکتی ہیں۔
محمد اسماعیل کے مطابق اس ٹریننگ پروگرام کے لیے ٹریفک پولیس کو موٹرسائیکل بنانے والی کمپنی ’ہونڈا اٹلس‘ کا تعاون حاصل ہے اور ان کے ماسٹر ٹرینرز کی طرف سے ہی خواتین کو موٹرسائیکل سے متعلق مکینیکل اور پریکٹیکل ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موٹرسائیکل ڈرائیونگ کی ٹریننگ میں خواتین کو پہلے گراونڈ میں چار دیواری کے اندرسیفٹی کٹس کے ساتھ تربیت دی جاتی ہے اور پھر جیسے جیسے ان کی ڈرائیونگ میں بہتری آتی جاتی ہے ماسٹر ٹرینر انہیں سڑک پر موٹرسائیکل چلانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔