دی انڈپینڈنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی وزیر ساجد جاوید نے وزارت خزانہ میں کام کرتے ہوئے بطور رکن پارلیمنٹ آف شور ٹرسٹ کا استعمال کیا تاہم اسے رجسٹر آف ممبرز انٹرسٹ میں ظاہر نہیں کیا تھا۔
2011 میں اس وقت کے چانسلر جارج اوسبورن کے پارلیمنٹری پرائیویٹ سیکریٹری (پی پی ایس) کے طور پر ساجد جاوید، جو اب وزیر صحت کے منصب پر فائز ہیں، نے اتحادی حکومت کی کفایت شعاری پالیسیز کو اراکین پارلیمنٹ کو فروخت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ساجد جاوید اپنے ذاتی ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ’ٹیکس ہیون‘ میں موجود سمجھے جانے والے ایک ٹرسٹ کا استعمال کر رہے تھے۔ انہوں نے وزارت خزانہ میں بھی اس وقت خدمات انجام دیں جب حکومت نے دسمبر 2011 میں نان ڈومز اور اوورسیز ٹرسٹ کا احاطہ کرنے والی پالیسیوں پر مشاورت شروع کی تھی۔
رواں ماہ کے آغاز میں ساجد جاوید نے اعتراف کیا کہ انہوں نے سیاست میں آنے سے پہلے نان ڈوم سٹیٹس کا استعمال کیا تھا اور ان کے پاس آف شور ٹرسٹ موجود تھا لیکن اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ انہوں نے بطور رکن پارلیمان اور پی پی ایس اس ٹرسٹ کو ظاہر نہیں کیا تھا۔
وزارتی ضابطہ قانون کے مطابق پی پی ایس، جو وزارتی معاون کے طور پر کام کرتے ہیں، تکنیکی طور پر حکومت کے رکن نہیں ہوتے اور انہیں یقینی بنانا چاہیے کہ ’پارلیمنٹری پرائیویٹ سیکریٹری کے طور پر ان کے کردار اور ان کے نجی مفادات کے درمیان کوئی ٹکراؤ پیدا نہ ہو یا پیدا ہوتا نظر آئے۔‘
2012 میں حکومتی وزیر بننے کے بعد ہی سابق بینکر ساجد جاوید نے اپنے بیرون ملک اثاثوں کی حد اور ان کے انتظام کے بارے میں مزید تفصیلات ظاہر کیں۔
وزارت خزانہ کے شیڈو فنانشل سیکرٹری جیمز مرے نے اس بارے میں کہا: ’اگر ساجد جاوید نے آف شور ٹرسٹ میں اس وقت رقم رکھی جب وہ وزارت خزانہ کا حصہ تھے تو اس سے اس حکومت میں فیصلہ سازی پر مزید سوالات اٹھیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سینیئر وزرا کا اس سال محنت کش طبقے پر ٹیکس میں اضافے کا دفاع کرنا منافقت پر مبنی ہوگا جب کہ انہوں نے خود اتنے سال جائز ٹیکس سے بچنے میں گزارے ہیں۔‘
رواں ماہ کے شروع میں ساجد جاوید نے اس وقت یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے ٹیکس بل کو کم کرنے کے لیے نان ڈوم سٹیٹس کا استعمال کیا تھا جب دی انڈپینڈنٹ نے انکشاف کیا تھا کہ چانسلر کی اہلیہ اکشتا مورتی نے برطانیہ میں اپنے ٹیکس بل کو کم کرنے کے لیے یہی راستہ اپنایا تھا۔
اکشتا مورتی نے بعد میں برطانیہ میں اپنی دنیا بھر سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس ادا کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اپنے نان ڈوم سٹیٹس کو برقرار رکھا۔
آف شور ٹرسٹ اور نان ڈوم سٹیٹس کا استعمال ٹیکسوں کو محدود کرنے کے قانونی طریقے ہیں۔
ساجد جاوید کا اس ٹرسٹ کا 2011 میں رجسٹر آف ممبرز انٹرسٹ میں اندراج نہیں تھا لیکن انہوں نے اپنے سابق آجر یعنی ’ڈوئچے بینک‘ میں شیئر ہولڈنگ کو ظاہر کیا تھا۔
ساجد جاوید کے ایک ترجمان نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ آیا اس ٹرسٹ کے اثاثوں میں، جس کے بارے میں ساجد جاوید نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے 2012 میں اسے تحلیل کر دیا تھا، میں ڈوئچے بینک کے ان حصص کے ساتھ ساتھ دیگر اثاثے اور مختلف کمپنیوں کے حصص بھی شامل ہیں یا نہیں۔
انہوں نے یہ بتانے سے بھی انکار کر دیا کہ آیا یہ ٹرسٹ ایک بلائنڈ ٹرسٹ یا بلائنڈ انتظامی امور کے تحت چلایا گیا تھا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ کہاں واقع ہے۔
وزیر صحت نے وزارت خزانہ میں شمولیت کے ایک سال بعد تک آف شور ٹرسٹ کو ختم نہیں کیا تھا تاہم انہوں نے سیاست میں آنے سے پہلے 2009 میں متنازع نان ڈوم ٹیکس سٹیٹس کو استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحت اور سماجی نگہداشت کی وزارت کے ترجمان نے کہا کہ ’ساجد برطانیہ میں اپنے سابقہ ٹیکس سٹیٹس اور جب وہ بیرون ملک مقیم تھے کو لے کر بہت واضح اور شفاف رہے ہیں۔ اور یہ کہ ان کے پاس مزید کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘
جب انہوں نے اپنا ٹرسٹ تحلیل کیا تو ساجد جاوید نے 50 فیصد ٹیکس کی شرح سے اس کی ادائیگی کی جس کے بارے میں انہوں نے دعویٰ بھی کیا کہ مالیاتی انتظامات سے کسی بھی ’جمع شدہ مفاد‘ کو پورا کیا جائے گا۔
ساجد نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ہمیشہ ٹیکس، سرکاری اور پارلیمانی حکام کو درکار معلومات ظاہر کی ہیں۔
مرے نے کہا: ’عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ٹیکس سے بچنے کے انتظامات سے کن وزرا نے فائدہ اٹھایا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے کتنی رقم بچائی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب کہ ٹوریز (حکمران جماعت) مہنگائی اور توانائی کے بلوں میں اضافے کے باعث محنت کش طبقے پر ٹیکس بڑھا رہے ہیں، لیبر پارٹی ٹیکس کے نظام کو بہتر بنائے گی۔ ہم فرسودہ 'نان ڈوم' نظام کو ختم کر دیں گے تاکہ ہر کوئی جو برطانیہ میں اپنا گھر بناتا ہے وہ اپنی تمام آمدنی پر یہاں ٹیکس ادا کرے۔‘
ساجد جاوید کی جانب سے ترتیب دی گئی ٹائم لائن کی تازہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس حکومت کی سیاسی فرنٹ لائن پر موجود تھے مالی بحران کے بعد ٹوری بیک بینچرز کو انتہائی سادگی اپنانے کی پالیسز کی ترغیب دے رہے تھے جبکہ وہ خود اپنی دولت کو محفوظ بنانے کے لیے اس میکانزم کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔
اپنے وقت میں بطور بینکر ساجد جاوید، جو خود ایک سابق چانسلر تھے، کا تعلق ڈارک بلیو انویسٹمنٹ سے جوڑا جاتا ہے جو کہ ایک ایمپلائی بینیفٹ ٹرسٹ تھا جس میں عملے کو ٹیکس سے بچنے کے لیے ٹرسٹ کے ذریعے شیئر بونس کی ادائیگی کی جاتی تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ان بونسز پر ٹیکس ادا کیا جانا چاہیے۔
ماہرین نے ساجد جاوید کے نان ڈوم سٹیٹس کے استعمال پر سوالات اٹھائے ہیں کہ وہ برطانیہ میں پیدا ہوئے تھے اور اس لیے انہیں یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ وہ طویل مدت کے لیے ملک میں رہنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔
© The Independent