اپنی نوجوانی سے سڑکوں پر زندگی گزارنے تک نگوین تھی تھونی کو ویت نام کی پہلی باکسنگ ورلڈ چیمپیئن بننے کے لیے غربت اور صنفی تعصب کا مقابلہ کرنا پڑا۔
25 سالہ باکسر نے اکتوبر میں جاپان کی دفاعی چیمپیئن ایٹسوکو ٹاڈا اپ سیٹ شکست سے دوچار کرتے ہوئے اور اپنی محض پانچویں فائٹ میں ورلڈ باکسنگ آرگنائزیشن کا منی فلائی ویٹ بیلٹ اپنے نام کر لیا۔
یہ ایک ایسی کھلاڑی کے لیے ایک قابل ذکر فتح تھی جنہوں نے ایک قدامت پسند معاشرے میں اس شعبے کا انتخاب کیا جہاں کھیلوں میں خواتین کی شرکت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
نی کا یہ سفر اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے 13 سال کی عمر میں سکول میں اپنی پڑھائی میں مشکلات کے بعد باکسنگ کا رخ کیا۔
ان کے ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے ایک کوچ نے نی کو بتایا کہ وہ شہر کی ٹیم میں جگہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ہوچی من شہر کے ایک پسماندہ علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے گھر میں اپنے خاندان کے نو افراد کے ساتھ رہتے ہوئے نی نے اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کھیل کی تربیت کے لیے وقف کر دیا۔ وہ اس مشکل ماحول سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بے چین تھیں۔
نی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’میں زیادہ پیسہ کمانا چاہتی تھی اس لیے میں نے سخت تربیت کی۔ میرے پاس باہر جانے اور تفریح کا وقت نہیں تھا۔ میں ہفتے کے تقریباً ہر دن تربیت کر رہی تھی۔‘
تعصب سے جنگ:
نی نہیں جانتی تھیں کہ باکسنگ انہیں کہاں لے جائے گی لیکن وہ جانتی تھیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ وہ مایوس کن مشکل زندگی کا پہیہ چلانے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے میں مدد کے لیے سڑکوں پر کام کرتی رہیں۔
نی نے بتایا: ’میں نے سڑکوں پر لاٹری ٹکٹ بیچ کر اور ریستورانوں میں بطور ویٹریس نوڈلز پیش کر کے کچھ پیسے کمائے۔ میں نے ہر وہ کام کیا جس سے مجھے اپنے خاندان کی مدد کرنے کے لیے رقم مل سکتی تھی۔‘
عالمی مقابلوں میں جاپانی حریف کو زیر کرنے کے بارے میں بتاتے ہوئے نی کا کہنا تھا: ’مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں جیت گئی ہوں۔ میں اپنے بستر پر چیمپئن شپ بیلٹ کے ساتھ پوری رات جاگتی رہی۔‘
ان کی جاپانی حریف اپنے کیریئر میں 20 مقابلے جیت چکی تھیں۔
ویت نام کے قدامت پسند معاشرے میں کھیلوں میں خواتین کی شمولیت کے بارے میں منفی رویہ دیکھا جاتا ہے اور نی کو بھی اس راستے پر چلتے ہوئے طعنوں کو برداشت کرنا پڑا۔
نی نے کہا: ’میرے پڑوسی میری دادی سے مسلسل سوال کرتے تھے کہ انہوں نے مجھے لڑکوں کی طرح باکسنگ میں شرکت کیوں کرنے دی۔ مجھے انہیں یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کرنی تھی کہ میں نے جو راستہ چنا تھا وہ میرے لیے درست تھا۔ میں نے باکسنگ کے شوق سے پیسے کمائے۔ میں ان سے بہتر تھی۔‘
نی نے کہا کہ ان کے راستے میں آنے والے چیلنجوں نے انہیں کامیابی کے لیے مزید پرعزم بنا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’میں نے ہمیشہ اپنی پوری کوشش کی اور بچپن سے اپنے جسم کو مضبوط بنایا۔ لیکن میں اب بھی مردوں کے مقابلے میں خود کو کمزور سمجھتی ہوں اس حقیقت کے باوجود کہ مجھے ہمیشہ یہ ظاہر کرنا پڑا کہ میں سخت جان خاتون ہوں۔‘
اپنی فتح کے چھ ماہ بعد نی کا باکسنگ کیرئیر ایک دوراہے پر ہے کیونکہ وہ ایمچور ایونٹس کے ساتھ پیشہ ورانہ کھیل کو بھی جاری رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
ویت نام میں کھلاڑیوں کو پروفیشنل پروموٹرز اور ریاستی سپورٹس مینجمنٹ اتھارٹی کے درمیان توازن قائم رکھنا پڑتا ہے۔
نی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈبلیو بی او 180 دن کی لازمی مدت کے اندر ٹائٹل کے دفاع میں ناکامی پر بیلٹ واپس لے لیتی ہے جب کہ انہوں نے ترکی میں پیر سے شروع ہونے والی بین الاقوامی باکسنگ ایسوسی ایشن ایمچور ایونٹ میں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بیلٹ کھونے پر غمزدہ نہیں ہیں اور ویت نام میں اگلے ہفتے شروع ہونے والے ساؤتھ ایسٹ ایشین گیمز سے دستبردار ہونے کے بعد وہ عالمی مقابلوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔
نی نے کہا: ’اب میرا مقصد ترکی میں تمغہ جیتنا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ میں ایمچور اور پروفیشنل دونوں راستوں پر چل سکتی ہوں۔‘
باکسنگ نے نی کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے ان کی آمدنی مستحکم ہے اور وہ ایک پیشہ ور کھلاڑی کے طور پر ٹی وی اور تفریحی شوز میں شرکت کر کے مزید رقم کماتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا مقصد ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ یا اپنے ذاتی گھر کے لیے کافی رقم اکٹھا کرنا ہے۔‘