پی ٹی وی کے مشہور ترین ڈراموں ’وارث‘، ’الف نون‘ اور ’فیملی فرنٹ‘ میں کام کرنے والی ثمینہ احمد پاکستانی فلم، تھیٹر اور ٹی وی ڈراما انڈسٹری سے پچھلے 50 برسوں سے منسلک ہیں۔
ثمینہ کو ان کی خدمات کے لیے 2011 میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
90 کی دہائی میں اپنے پہلے شوہر فلم ساز وحیدالدین ضیاالدین احمد سے علیحدگی کے بعد ثمینہ نے 2020 میں منظر صہبائی سے دوسری شادی کی۔
منظر صہبائی معروف پاکستانی فلم ’بول‘ میں اپنی اداکاری کے باعث مشہور ہونے کے بعد سے فلم ’زندہ بھاگ‘ میں بھی جلوہ گر ہوچکے ہیں۔ ان کی یہ فلم 2013 میں ہالی وڈ کے معتبر آسکر ایوارڈز کے لیے پاکستان کی جانب سے نامزد بھی کی گئی۔
انہوں نے پاکستانی ڈرامے ’الف‘ میں بھی مرکزی کردار ادا کیا اور آنے والے دنوں میں وہ عمرو عیار کی ایک ڈراما سیریز میں بھی جلوہ گر ہوں گے۔
منظر نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جرمنی میں گزارا ہے البتہ ثمینہ احمد سے شادی کے بعد وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔
عید پر ہم نے ان سے جب پوچھا کہ عید کے کپڑے کس کی پسند سے بنتے ہیں تو دونوں نے زور کا قہقہہ لگایا اور منظر نے کہا: ’ہم دونوں ہی اب عید کے لیے خاص کپڑے بنانے کا اہتمام نہیں کرتے البتہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے کپڑے بنا دیں اور ان کے لیے عید پر اہتمام کریں۔‘
ثمینہ نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا: ’بچپن میں ہمارے گھر میں ابلی ہوئی سویاں بنتی تھیں جو مجھے اچھی نہیں لگتی تھیں ضروری ہوتا تھا کہ یہ عید کے روز ناشتے پر کھانی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ابلی ہوئی سویوں میں اوپر سے دودھ اور چینی ڈال کر سیریل کی طرح مکس کرکے کھاتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا: ’مجھے بچپن میں دو روپے عیدی ملتی تھی۔ اس میں میں خوش ہوجاتی تھی۔ ان پیسوں سے میں اپنے لیے چھوٹے چھوٹے کھلونے خریدتی تھی۔ ایک چھوٹا سا باجا تھا وہ مجھے بہت پسند تھا تو میں عیدی کے پیسوں سے اسے لازمی خریدتی تھی۔‘
ساٹھ اور ستر برس کی عمر میں شادی کا فیصلہ کرنے والے اس جوڑے نے ایک دوسرے کے ساتھ کے بارے میں بھی بات کی۔
منظر صہبائی نے کہا: ’پارٹنرشپ ایک بہت خوبصورت چیز ہے۔ اس کا اپنا جادو ہے۔ زندگی کے اس مرحلے میں جب عمر اتنی زیادہ ہو اور آپ ایک انسان کے قریب ہوں اور ان کے ساتھ زندگی بسر کریں تو کافی کچھ آسان ہوجاتا ہے۔‘
ثمینہ نے کہا: ’میں نے بہت زندگی اکیلے گزاری ہے، اپنا بیشتر وقت بچوں کی پرورش میں گزارا اور ساتھ میں کام بھی کیا۔ میں غالباً پاکستان کی ان چند خواتین میں سے ایک ہوں جنہوں نے اس وقت اپنا پروڈکشن ہاؤس بنایا جب خواتین کے لیے یہ عام نہیں تھا۔ البتہ کافی سالوں تک میں نے نہ صرف اداکاری بلکہ پروڈکشن اور ڈائریکشن بھی کی جو کہ اب چھوڑ دی ہے۔ اداکاری اب بھی جاری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’زندگی کے اس مقام پر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میری زندگی میں جو ایک خلا تھی وہ اب نہیں ہے۔ زندگی میں محبت جب ہونی ہوتی ہے ہوجاتی ہے۔ زندگی کا ایک لمبا عرصہ اکیلے گزارنے کے بعد ایک مضبوط اور خودمختار خاتون ہونے کے باوجود بھی اگر زندگی میں کوئی اتنا اچھا، محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا شخص ملے تو اس سے شادی کیوں نہ کی جائے؟‘
منظر کا کہنا تھا: ’ہم نے باقاعدہ طور پر ایک دوسرے سے اظہار محبت نہیں کیا، ہم جب ایک دوسرے سے ملے اور ہماری بات چیت شروع ہوئی تو ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے درمیان کچھ ہے۔‘
ثمینہ نے بتایا: ’محبت کا آغاز ہونے کے بعد منظر جرمنی چلے گئے جہاں وہ پچھلی کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔ اظہار محبت سے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرنے تک واٹس ایپ نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔‘
’ہم کچھ عرصے تک باتیں کرتے رہے تب تک جب تک ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں ساتھ رہنا ہے۔ اس میں تقریباً پانچ سے چھ مہینے تک کا عرصہ لگا۔‘
اس پر منظر نے ثمینہ کو کہا کہ اس سے زیادہ عرصہ لگا تھا انہیں منانے میں۔
انہوں نے کہا: ’جب میں نے ثمینہ سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی کہ میرے بچے اور دنیا والے کیا کہیں گے۔ میرے لیے ثمینہ کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ زیادہ اہم تھا۔‘
’ہمارے معاشرے میں اگر ہماری عمر کے افراد محبت، شادی یا کاروبار کرنا چاہیں تو انہیں آج بھی وہ آزادی نہیں ملتی۔ معاشرے میں یہ چیز تبدیل ہونی چاہیے۔‘