ملک بھر اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں2007 سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی لہر میں صوبے کے دیگر شعبوں سمیت موسیقی کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ فن کاروں کو ایسا وقت بھی یاد ہے جب وہ اتنا گھبرائے ہوتے تھے کہ کہیں بھی پرفارم کرنے سے پہلے سٹیج کو اوپر اور نیچے سے چیک کرتے تھے۔ لیکن گذشتہ کچھ سالوں سے صورت حال قدرے بہتر ہے اور خیبر پختونخوا کی فضاوں میں پھر خوبصورت موسیقی کے سر بکھرے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز ’علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک‘ میں آج ہم مل رہے ہیں خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے گلاب آفریدی سے جو گذشتہ 20 سالوں سے پشتو موسیقی سے وابستہ ہیں۔
ان کا شمار خیبر پختونخوا کے چند مشہور رباب بجانے والوں میں ہوتا ہے۔ رباب سے پہلے وہ گیٹار بجاتے تھے لیکن بعد میں رباب سیکھ کر رباب ہی کے ہو گئے۔
انہوں نے 1997 میں رباب بجانا شروع کیا اور اس وقت سے خیبر پختونخوا کے مخلتف اضلاع میں پشتو موسیقی کے کنسرٹ بھی کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے اس فن کو نقصان پہنچا تھا لیکن گلاب آفریدی کے مطابق اب وقت بدل گیا ہے۔
گلاب آفریدی آج کل پشاور کے مشہور علاقہ ڈبگری کارڈن میں رہائش پذیر ہیں۔ کمرے کی دیواروں پر ان کو گلوکاری میں ملنے والے مخلتف تعریفی اسناد سجے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے دور میں جب روز دھماکے ہوتے تھے اس وقت موسیقی کی فن سے وابستہ ہر فنکار کے دل میں ڈر موجود تھا۔ ’کسی کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ دھماکہ کہاں ہو سکتا ہے۔ حملے ایسے ہوتے تھے کہ ہر کوئی مر سکتا تھا ۔اسی وجہ سے ہمارے کام پر بہت فرق پڑا تھا۔ ان دنوں جب بھی میں موسیقی کے پروگرام کرنے جاتا تھا تو پہلے سٹیج کو چیک کرتا تھا کہ ایسا نہ ہوں کہ کوئی نا خوشگوار واقعہ ہوجائے۔‘
ان کے مطابق اس وقت پروگراموں کی ریکارڈنگ بھی نہ کے برابر تھیں کیونکہ لوگ بھی ڈرتے تھے، لیکن 2014 کے بعد حالات بہتر ہوئے ہیں، کام بھی زیادہ ہے اور اب انہوں نے مخلتف اضلاع میں موسیقی کے محفلوں کے لیے دوبارہ جانا شروع کر دیا ہے۔
گلاب آفریدی نے 2016 میں ایک میوزک اکیڈمی بھی کھولی جہاں وہ فن کے شوقین افراد کو رباب سکھاتے ہیں۔ پشتو، اردو اور انگریزی گانوں کے علاوہ گلاب آفریدی نے مشہور زمانہ سیریز گیم آف تھرونز کے سگنیچر میوزک کو بھی رباب سے بجانا سیکھا لیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گیم آف تھرونز چونکہ بہت لوگوں میں مقبول ہے اور ایک جدید قسم کا میوزک ہے اسی وجہ سے انہوں نے اس کو سیکھنا اہم سمجھا کیونکہ ساری عمر رباب کے کچھ ہی سروں سے موسیقی کے شعبے کو اتنا فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
انہوں نے کہا: ’موسیقی امن کی زبان ہے اور ہم اپنی موسیقی سے دنیا بھر کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم امن پسند لوگ ہیں۔‘