پاکستان کے معروف لکھاری، دانش ور اور طنز و مزاح نگار انور مقصود کہتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جو انہیں یاد رکھا جائے۔
عید کے موقعے پر انڈپینڈںٹ اردو نے ان کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کی جو پیش خدمت ہے۔
عید پر تاثرات
انور مقصود نے عید کے حوالے سے اپنی یادیں ٹٹولتے ہوئے بتایا کہ وہ بچپن میں نئے جوتے تکیے کے ساتھ رکھ کر سوتے تھے کہ صبح پہن کر بزرگوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے جائیں گے۔
’عید کا دن ایسا ہوتا تھا کہ اگر لوگ آپس میں ناراض ہیں تب بھی گھر پر آجاتے کہ چلیں آج عید کا دن ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم 10 بھائی بہن تھے، اب چار رہ گئے ہیں۔ زبیدہ میری چھوٹی بہن تھیں، عید پر دوپہر کا کھانا ان کے گھر پر ہوتا تھا۔
’سارا خاندان جاتا تھا۔ بجیا جب تک زندہ تھیں تو سب سے پہلے ہم لوگ ان کے پاس جاتے تھے۔ عید کا چاند نظر آنے کے بعد اماں کو جا کر مبارک باد دینا ہمارا فرض تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ سب کچھ ایک خواب سا رہ گیا ہے۔ بچے اب عید کے دن بڑوں سے ملنے بھی نہیں جاتے، ان کی اپنی مصروفیات ہیں۔
عیدی کی اہمیت
عیدی کے حوالے سے انور مقصود نے بتایا کہ ان کے پوتے پوتیاں انہیں دادا نہیں بلکہ انور کہہ کر بلاتے ہیں۔
’وہ جب پوچھتے ہیں کہ انور کتنی عیدی دے رہے ہو تو میرا بیٹا بلال اور اس کی بیوی منع کرتے ہیں کہ دادا سے عیدی نہیں لینی۔ ایسے میں وہ مجھے چپکے سے اشارہ کرتے ہیں کہ ایک طرف آ کر ہمیں عیدی دے دینا۔
’میں ان کے لیے کھانا بھی بناتا ہوں۔ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ انور آج ہمیں کھلا رہے ہو۔ اب تو وہ سب دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں لیکن جب وہ آتے ہیں، میری عید ہوجاتی ہے۔‘
ماضی کی شخصیات کے خطوط
انور مقصود کی مقبول یوٹیوب سیریز انور نامہ میں انہوں نے ماضی کی کئی شخصیات کے خطوط اور مکالمے پڑھ کر سنائے ہیں، جن میں غالب، حبیب جالب، پطرس بخاری، احمد فراز، منٹو، علامہ اقبال اور اس کے علاوہ دیگر کئی مایہ ناز شخصیات کے خطوط شامل ہیں۔
’مجھے آج بھی غالب، اقبال اور نئے لوگوں میں جون ایلیا کے خط آتے ہیں۔ میں ان کو یہاں کا حال احوال لکھتا رہتا ہوں۔ وہ اللہ کا شکر کرتے ہیں کہ آج کے دور میں نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ ’میں جانتا ہوں کہ اچھے دنوں کو آنا ہے۔۔۔۔دوسرے ملکوں میں آنے والا سال پچھلے سالوں سے بہتر ہوتا ہے مگر یہاں (پاکستان میں) الٹا حساب ہے۔‘
انور مقصود اور سوشل میڈیا
سوشل میڈیا پر انور مقصود کے نام سے شاعری، اقوال اور سیاسی و غیر سیاسی ٹویٹس گردش کرتی رہتی ہیں۔ تاہم گفتگو کے دوران انور مقصود نے واضح کیا کہ ان کا کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہیں۔
’میرے پاس واٹس ایپ تک نہیں۔ میرے پاس سادہ سا فون ہے۔ اب اس فون سے میں کیا کیا کرسکتا ہوں؟ میں بس سلام کرسکتا ہوں اور ہرا بٹں دبا کر بات کرسکتا ہوں، مجھے تو میسج کرنا بھی نہیں آتا۔’
انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا کو روکا نہیں جا سکتا البتہ ایک تہذیب آنی چاہیے۔
لوز ٹاک اور معین اختر
2002 سے 2008 تک اے آر وائی ڈجیٹل پر معین اختر کے ہمراہ پروگرام ’لوز ٹاک‘ کے بارے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 36 سال تک معین کے لیے لکھا، جن میں چند برس لوز ٹاک کے بھی تھے۔
’میں نے لوز ٹاک معین کے بعد کسی اور کے ساتھ شروع نہیں کیا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ معین کی کرسی پر کوئی اور نہیں بیٹھ سکتا۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ انہیں بھارت سے شوز کرنے کی پیشکش آتی رہتی ہے لیکن میں جواب دیتا ہوں کہ میں وہاں نہیں آ سکتا۔
انہوں نے معین اختر کی ایک بات یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سوٹ پہننے کا بہت شوق تھا۔ ’معین اختر کسی کے چہلم میں بھی سوٹ پہن کر چلے جاتے تھے۔
’معین کے پاس تقریباً 400 سوٹ تھے مگر الماری نہیں تھی۔ ان کے گھر میں ڈارئنگ روم سے دوسرے کمروں تک ایک لمبی سی ڈنڈی پر سارے سوٹ لٹکے ہوتے تھے۔‘
انٹرویو کے دوران جب انور مقصود سے پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں انہیں کس چیز کے لیے یاد رکھیں تو اس سوال پر کچھ لمحے گہری سوچ میں مبتلا رہنے کے بعد ان کی آنکھوں میں تھوڑی نمی آ گئی، وہ مسکرائے اور کہنے لگے ’میں نے ایسا کوئی کام ہی نہیں کیا کہ لوگ مجھے یاد رکھیں۔‘