تب میں اکیس سال کا لونڈا تھا اور پندرہ سولہ کا لگتا تھا۔ داڑھی مونچھ ابھی نہیں آئی تھی۔
میں سعودی عرب میں ابو قبیس پہاڑ کے دوسری طرف ایک ہوٹل کے برتن مانجھ رہا تھا کہ ایک کالا عرب سفید جبہ پہنے نمودار ہوا۔ سر پر اُس کے کالے عقال کی بجائے سفید صافہ بندھا تھا، جسے اکثر عرب باندھ لیتے ہیں۔ اُسے دیکھ کر میں اُٹھ کھڑا ہوا۔
وہ بولا، ’یا غلام مِن این باسبورٹ۔‘
میں ڈر گیا کہ پکڑے گئے۔ اپنا پاسپورٹ نکال کر دکھایا، ظاہر ہے عمرے کا تھا اور اقامہ نہیں رکھتا تھا۔ پاسپورٹ دیکھ کر اُس نے ایک لمبی ’ہوں ں ں‘ کر کے سر ہلایا اور کہا ’جا، عقبیٰ‘ یعنی میرے پیچھے آ۔
میں ڈرتا ہوا پیچھے چل پڑا۔ تھوڑی دور جا کر ایک تنگ سے گھر میں داخل ہو گیا۔ اندر ڈرائنگ روم تھا اور کافی قیمتی سامان سے مزین تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دو عرب اور چار مزید لڑکے بیٹھے ہیں۔ میں حیران کہ اللہ جانے اب کیا ہو گا۔ یہ عرب تو پولیس کی بجائے عام لوگ تھے اور چار لڑکے انڈین تھے۔ اُس نے مجھے اشارے سے ایک جگہ بٹھا دیا، عربی میں پوری سمجھ لیتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ایک عرب بولا، ’دیکھو لڑکے، تم نے آج ہمارے لیے کام کرنا ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک میلہ ہے، وہاں چلنا ہے۔ ہم آپ کو لے جائیں گے اور چھوڑ بھی جائیں گے، کھانا بھی دیں گے۔ اِن باتوں کے علاوہ فی کس تین سو ریال بھی دیں گے۔‘
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’کام کیا ہے؟‘ اُس نے کہا، ’وہیں جا کر بتائیں گے۔ آپ یہاں بغیر اقامے کے کام کرتے ہیں۔ بات نہ مانی تو شُرطوں کے حوالے کر دیں گے۔ اب جو تمھاری مرضی۔‘
مجھ سے پہلے پکڑے ہوئے لونڈے تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا۔ اُس کے بعد وہ اُٹھ کر چل دیے۔ میں نے دوسرے لڑکوں سے سن گن لی تو ایک بولا، ’اونٹوں کے پیچھے باندھ کے دوڑائیں گے۔‘ دوسرے نے خبر دی بیوی کا کام لیں گے۔ غرض سب نے بُری بُری خبریں سنائیں یعنی جو کچھ اُن نے پہلے سُن رکھا تھا یا تجربہ کر رکھا تھا، بتانے لگے اور مجھے ہول آنے لگے۔
یہ شام کا دھندلکا سا تھا۔ ایک گھنٹہ رُک کر کھانا آ گیا، کھانا اگرچہ عمدہ چاول گوشت تھا مگر میرے تو حلق میں اٹک اٹک جاتا تھا۔ کھانے کے بعد کعبے کے حرم سے عشا کی اذان گونجنے لگی۔ تب ایک عرب داخل ہوا اور بولا، ’نماز پڑھ لو، پھر چلتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب آپ جانیے میں نے وہ نماز کیسے پڑھی ہو گی۔ اُس کے بعد ایک اور عرب داخل ہوا، یہ پہلے والوں میں سے نہیں تھا۔ اِس نے ہمیں باہر نکال لیا اور ایک ڈبل کیبن ڈالے میں ڈال لیا۔ اور لے کر چل پڑا۔ دس یا پندرہ منٹ بعد وہ ایک جگہ پہنچ گیا۔ یہ جگہ مکہ سے شمال کی جانب بارہ پندرہ کلومیٹر پر تھی۔ النوریہ اس کا نام تھا۔ لیجیے جناب چاروں انڈین کیرالوی اور میں پاکستانی لونڈا، پانچوں اِس کالے عرب بھینسے کے رحم و کرم پر تھے۔
وہ عربی بولتا تھا مگر اِس کا لہجہ گینڈے کی طرح تھا۔ گلے سے ایسی آواز نکالتا جیسے چاول صاف کرنے کی مشین چلتی ہے۔ رستے میں ایک جگہ شُرطے ملے مگر اُس نے ڈبل کیبن ڈالے سے فقط تربوزے والا سر نکالا اور ہنس کے دکھا دیا اور جانے کا رستہ پا لیا۔ تھوڑی دُور سڑک پر گاڑی چلنے کے بعد وہ بائیں طرف سے نیچے اُتر گیا اور ریت پتھروں کے اونچے نیچے راستوں سے ہوتے ہوئے ایک وسیع اور دور تک کھلے میدان میں آ گیا۔
یہاں کیا دیکھتا ہوں کہ پھٹے پرانے ٹائروں کا جنگل آباد ہے۔ ٹائروں کے پہاڑ کے پہاڑ لگے ہیں، جہاں تک نظر جاتی ہے، ٹائر ہی ٹائر۔ ادھر ادھر دو چار کھجوروں اور ایک دو کیکروں کے پیڑ تھے۔ ایک کمرہ تھا۔ باہر سے کمرے کی حالت ہمارے ہاں کے دلتوں یا چوہڑوں کے کچے کوٹھوں جیسی تھی۔ ہم اندر داخل ہو گئے۔ یہاں تو سماں ہی اور تھا۔ تازہ دم اے سی لگا تھا اور برف کی طرح ٹھنڈ اُلٹا رہا تھا۔ نیچے لال پیلی دریوں کا سا قالین بچھا تھا۔
ہم تھوڑی ہی دیر بیٹھے تھے کہ ایک کالا بھجنگ حبشی اندر آیا۔ اُس کے ہاتھ میں پانی کا بڑا ڈولکا سا تھا۔ دوسرے کے پاس چاولوں کی لبالب بھری پرات تھی۔ حبشی نے عربی میں کچھ کہا، جس کا اردو صاف مطلب یہ تھا کہ ’ہندوستانی مسکین لونڈو، جلدی سے یہ کھاجا کھا لو اور قربانی کے لیے تیار ہو جاؤ!
دُور سے طبلے پیٹنے کی آواز برابر آتی تھی۔ ہمیں اپنی قربانی کا اندازہ تو نہیں تھا کہ کس قسم کی دینی پڑے گی، البتہ تین سو ریال دہاڑی کا پتہ تھا کہ کھانے کے علاوہ ملے گی۔ تین سو ریال کا مطلب اُس وقت یہ تھا کہ چار ہزار روپیہ برابر۔ تب اتنے پیسوں میں پاکستان کا غریب آدمی بیگم کو حق مہر ادا کر کے طلاق دینے کے قابل ہو جاتا تھا۔ آدھ گھنٹے میں جب ہم دوبارہ کھا پی کر فارغ ہو گئے تو وہی بھینسا داخل ہوا اور ہمیں ایک طرف لے کر پیدل چل دیا، ہم احاطے سے باہر نکل کر مغرب کی طرف ہو لیے۔
تھوڑی ہی دُور پہنچے تھے کہ وہاں بیس کے قریب موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں اور کوئی ایک سو کے قریب عرب لونڈے تھے۔ کافی سارے مرد بھی تھے۔ چند حبشی لڑکیاں تھیں۔ ان میں کچھ کالے تھے اور کچھ گندمی رنگ کے تھے۔ ہر موٹر سائیکل پر دو لڑکے چڑھے بیٹھے تھے۔
پیچھے والے تمام کے تمام ہماری طرح مسکین تھے یعنی غیر عرب، کوئی بنگالی تھا، کوئی ہندی نژاد تھا۔ اُن میں فقط میں غالباً پاکستانی تھا۔ کچھ حبشی ڈھول کی تھاپ پر خاص قسم کا عرب رقص کر رہے تھے اور گا رہے تھے۔ چاندنی رات سویرے کی طرح روشن تھی اور ریت کافی ٹھنڈی تھی۔ میں حیران کہ یہاں مجھ سے کیا کام لیں گے۔ ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ ہمیں اُن میں سے چار موٹر سائیکلوں کے لیے تقسیم کر دیا گیا۔ ایک کالے عرب لڑکے کے پیچھے مجھے بٹھا دیا۔ موٹر سائیکلیں گھوں گھوں کیے جاتی تھیں۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ میرا مصرف کیا تھا۔ اِس ریگزار میں ہائی پاور موٹر سائکلوں کا مقابلہ تھا، کھُلے ریگستان میں ڈبل سائلنسر موٹر سائیکلوں کو پاگلوں کی طرح چلانا تھا اور پیچھے بیٹھے ہووں کو نیچے گرانا تھا۔
مقابلہ کرنے والے عرب لڑکے تھے، کچھ شاہی اور کچھ سپاہی خاندان سے تھے اور پُشت بانی کرنے والے تمام ہم جیسے پرائے ملکوں کے مسکین تھے۔ مجھے حیرانی یہ تھی کہ اس کام میں ہمیں فی مسکین تین سو دینے کی بجائے یہ خود اپنے جیسا اشراف ہی کیوں پیچھے نہیں بٹھاتے۔ خیر یہ بات بھی جلد کھل گئی جس کا ذکر آگے آئے گا۔
موٹر سائیکل کا مسئلہ یہ تھا کہ اِس کے پیچھے بیٹھنے کو اصولاً جگہ نہیں تھی۔ فقط آدمی کو رسوا کرنے کے لیے بٹھایا جاتا ہے۔ چلیے پہلے اِس موٹر سائیکل کا سُن لیجیے۔ کم بخت موٹر سائیکل کیا تھی فقط دو ٹائروں پر ایک پٹرول ٹینکی ایک ہینڈل اور ایک کاٹھی رکھی تھی، باقی اللہ اللہ۔ نہ بریک، نہ کریئر، نہ ڈھنگ کی سیٹ، نہ بتی، نہ اشارہ۔
بیٹھنے والی سیٹ آگے سے تو چوڑی تھی کہ ڈرائیور کے بیٹھنے کو جگہ پوری تھی مگر پیچھے سے اتنی تنگ اور چھوٹی کہ فقط پانچ سالہ بچے کا پچھواڑہ اُس پر آ سکتا تھا۔ ستم پر ستم یہ کہ پیچھے بیٹھنے والے کے لیے کچھ سہارا پکڑنے کا بھی نہیں تھا۔ اور سہارے کے لیے عرب لڑکے کو پکڑنا گناہ عظیم تھا۔ یہ بات ہمیں سمجھا دی گئی تھی۔
یہ سمجھ لیجیے آپ نے موٹر سائیکل کے چلنے کے دوران عرب ڈرائیور لونڈے کو سہارے کے لیے ہاتھ لگایا نہیں کہ آپ کا تین سو ریال کا کریڈٹ گر کر صفر ہو گیا۔ یعنی پہلی غلطی پر مزدوری سلب اور اگلی غلطی پر سزا شروع۔ عذاب یہ تھا کہ سہارے کو اور کوئی شے بھی نہیں تھی۔ موٹر سائیکل کے آخری حصے میں ایک دُم سی تھی۔ یہ دُم ہلکے اور نرم پلاسٹک کی سمجھ لیں، جسے آپ پکڑ تو سکتے ہیں مگر گرتے ہوئے بچ نہیں سکتے۔ یہی ہوتا تھا کہ جب موٹر سائیکل جمپ لیتی تو آپ کے ہاتھ میں یہی دُم رہ جاتی، جسے مضبوطی سے پکڑے آپ ریت کنکروں میں کافی دیر تک پٹڑی سے اُتری ریل کی مانند لُڑھکتے چلے جاتے آخر کسی کھڈے یا ٹیلے سے بھڑ کر رُک جاتے تھے اور موٹر سائیکل عرب سمیت آگے نکل جاتی تھی۔
جس موٹر سائیکل کا پچھلا سوار سب سے پہلے گر جاتا، اُسے اول سمجھا جاتا، جس کا سب سے آخر میں گرے اُسے پھاڈی اور جس کا نہ گرے اُسے بھاری جرمانہ کیا جاتا۔ موٹر سائیکلوں کے ساتھ ساتھ گاڑیاں دوڑ رہی ہوتی ہیں، یہ دیکھنے کو کہ کوئی روندی تو نہیں مار رہا یعنی پُشت بان جان بوجھ کر نیچے تو نہیں گر رہا۔ ڈھول تاشے، شور شرابا، اور نعرے اور کان پھاڑنے والی عربی زبان میں گالیاں بلند آہنگی سے ایسے دی جاتی تھیں کہ کسی گنواروں نے بھی کیا سُنی ہوں گی۔
اِس سب کچھ کا پتہ مجھے اُس وقت چلا جب ریس کے لیے سب موٹر سائیکلیں دوڑ پڑیں۔ جس موٹر سائیکل پر میں تھا اُس کا ڈرائیور اللہ جھوٹ نہ بلوائے کوئی اولے درجے کا پاگل تھا۔ ایسی ایسی ریسیں دیے جاتا تھا کہ چھلاوے کی طرح اُڑ اُڑ جاتا تھا۔ اِدھر میں چھپکلی کی مانند کاٹھی سے چمٹا بیٹھا تھا۔ رہ رہ کر اُس کے کندھے پکڑنے کو ہاتھ جاتا تھا مگر تین سو ریال کے ضائع ہوتے خیال کر کے رُک جاتا تھا۔ اللہ قسم اُس مزدوری میں سب سے مشکل یہی جبر تھا جو مجھے اپنی طبیعت پر کرنا تھا۔ رہ سہہ کر موٹر سائیکل کی وہی دُم میرے ہاتھ میں تھی۔ زمین اگرچہ ریتلی تھی مگر کچھ نہ پوچھیے کہ کیسےموت آنکھوں میں پھری ہوئی تھی۔ آنکھیں میری بند تھیں۔ اُدھر وہ سالا سیدھے سبھاؤ چلانے پر آمادہ نہ تھا۔ جان بوجھ کر مجھے دھڑن تختہ کرنے کی طرف مائل تھا۔
اب مجھے ساری گیم سمجھ آئی کہ میری یہاں کیا ضرورت تھی۔ جب آنکھ کھولتا تھا تو کسی نہ کسی مسکین کو لڑھکتے پاتا تھا۔ پھر شتابی آنکھیں بند کر لیتا تھا۔ اُدھر ہر جمپ پر دو دو فٹ اچھل کر اُس چڈی قسم کی کاٹھی پر گرتا تھا۔ کچھ نہ پوچھیے میرا جی کیسے رو رہا تھا اور کیونکر عذاب میں اللہ اللہ ہو رہا تھا۔ مجھے یہ تو یقین ہو گیا تھا کہ گرنا بہر حال ہے مگر دعا مسلسل یہ تھی کہ کسی پتھر کی بجائے ریت پر گروں تاکہ مزید دہاڑی لگانے کے قابل ہوں۔
اسی عالم میں پندرہ بیس منٹ نکال لیے پھر اچانک ایسا جھٹکا اُس نالائق نے دیا کہ میرا پچھواڑا کاٹھی سے کوئی تین فٹ اُوپر اُٹھ گیا، اِسی عالم میں موٹر سائیکل نیچے سے ہوا ہو گیا اور میں ریت پر قلابازیاں کھاتا ہوا ایک ٹیلے پر چڑھتا چلا گیا۔ میرا گرنا تھا کہ تالیوں اور باجوں کا ایسا شور اُٹھا جیسے پسندیدہ گلیڈی ایٹر فاتح ہوا ہو اور فتح کے شادیانے میرے لیے بجائے گئے ہوں۔ گرنے کے سبب ریت میرے ناک، کان، منہ، غرض ہر جگہ گھس گئی۔ کچھ پہچانا نہ جاتا تھا۔ تھوڑا سنبھلا تو دیکھتا ہوں کوئی یہاں پشت مَلتا ہوا اُٹھ رہا ہے، کوئی وہاں سے اُٹھ رہا ہے اور عرب لونڈے ہزار ہزار شوخیوں کے ساتھ گھوں گھوں کرتے نعرے لگا رہے ہیں۔
ایک بنگالی لڑکا بچارہ ٹانگ پکڑے بیٹھا تھا اور ذبح ہوتے اونٹ کی طرح چیخ رہا تھا۔ اُس کی ٹانگ موٹر سائیکل کے پہیے میں رگڑی گئی تھی، جسے ایک کالا حبشی مزید مروڑ رہا تھا اور پٹی چپکا رہا تھا۔
میں ابھی اپنی چوٹیں سہلا رہا تھا، تھوڑی دیر میں تمام صحرا کے جانور یعنی ہم کو اکٹھا کر لیا گیا اور اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے مجاہدوں کو ایک قطار میں اکٹھا کر دیا گیا۔ ایک عرب آگے بڑھا، سب کے ہاتھوں میں نئے نکور ریال تھمائے گئے۔ میں ایک ہاتھ سے پیٹھ سہلا رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے ریال پکڑ رہا تھا۔
یہ درہم و دینار، یہ ڈالر و ریال بھی کیا چیز ہیں، چوٹ کھائے بغیر نہیں ملتے۔