دو جولائی کو سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک دفعہ پھر جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کی سماعت ہو گی۔ پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی وکلا تنظیموں کی جانب سے احتجاج کی کال دی جا چکی ہے۔
مگر ریفرنس کی سماعت اور احتجاج سے پانچ دن پہلے حکومت نے ملک بھر میں موجود بار کونسلز (وکلا تنظیموں) میں پیسے (وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق 18 سے 19 کروڑ روپے) بانٹے ہیں جس سے پیسے بانٹنے کی ٹائمنگ، حکومتی نیت، حکومتی صوابدید اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے حق میں چلنے والی تحریک کی افادیت پر بحث چھڑ گئی ہے۔
پیسے بانٹنے کی ٹائمنگ
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے معروف قانون دان علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ یہ گرانٹ بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ یہ ایسے وقت پر دی جا رہی ہے جب جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی سماعت دو جولائی کو ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار اور اسلام آباد ضلعی بار کو بھی حکومت کی جانب سے جاری گرانٹ میں حصہ ملا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر راجہ انعام امین منہاس سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس گرانٹ کے لیے درخواست رواں سال جنوری میں دی تھی۔
وزارت قانون کے ایک اعلی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ روز اگر گرانٹ جاری نہ کی جاتی تو گرانٹ کا وقت گزر جاتا کیونکہ مالی سال کا اختتام ہونے کو ہے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے گزشتہ روز وکلا اور صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیسے جاری کرنے کے وقت کا انتخاب غیر متعلقہ ہے کیونکہ یہ فنڈ مختص ہوتے ہیں اور اس بار کو منتخب لوگوں کو نہیں بلکہ تمام تنظیموں کو ملے ہیں۔
پیسے وکلا کا حق یا حکومتی استحقاق؟
وفاقی وزیر قانون کے مطابق بار کونسلز کے لیے فنڈز ان کا حق ہے اور یہ بجٹ میں ہر سال مختص ہوتا ہے۔
معروف قانون دان علی احمد کرد کے مطابق یہ پیسے وکلا کا حق ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر راجہ انعام امین منہاس اور اسلام آباد ضلعی بار کے صدر چوہدری خانزادہ نے بھی اسی موقف کی تائید کی۔
اس کے برعکس جب وزارت قانون کے اہلکار سے پوچھا گیا کہ یہ فنڈز وکلا کا حق ہیں یا حکومتی صوابدید تو ان کا کہنا تھا کہ یہ فنڈز حکومت کی صوابدید ہیں۔
وزارت قانون کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فنڈز وکلا اور بار کونسلز ایکٹ 1973 کی شق 57 کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔ شق 57 کے مطابق پاکستان بار کونسل کی صورت میں وفاقی حکومت اور صوبائی بار کونسل کی صورت میں صوبائی حکومت متعلقہ بار کونسل کو گرانٹ جاری کر سکتی ہے۔ اس شق میں فنڈز کو لازم قرار نہیں دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پچھلی حکومتوں نے وکلا میں پیسے بانٹے؟
وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق بار کونسلز کو گرانٹ دینے کا عمل پچھلے چار، پانچ برس رکا رہا اور ’پانچ، چھ سال پہلے پیسوں کی تقسیم ہوئی تھی مگر صرف چنے ہوئے لوگوں میں۔‘
اس کے برعکس اسلام آباد ہائی کورٹ اور ضلعی بار کے صدور کے مطابق گزشتہ سال ان کو حکومتی گرانٹ ملی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ گرانٹ نگران حکومت کی طرف سے جاری کی گئی یا مسلم لیگ ن کی حکومت نے تو انہوں نے اس سوال کے جواب سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
وزارت قانون کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق مالی سال 2015-16 میں وکلا تنظیموں کو کوئی گرانٹ نہیں دی گئی جب کہ مالی سال 2016-17 میں 176.9 ملین اور 2017-18 میں 212 ملین روپے دیے گئے۔
کیا اس گرانٹ سے جسٹس قاضی فائز عیسی تحریک پر فرق پڑے گا؟
علی احمد کرد کے مطابق مالی سال کے آخری دنوں میں یہ گرانٹ دینا ثابت کرتا ہے کہ اس کا مقصد وکلا کو تقسیم کرنا ہے اور ایسی کوشش بابر اعوان نے بھی ماضی میں کی تھی، نہ وہ کامیاب ہوئے تھے اور نہ پیسے کے بل بوتے پر وکلا تقسیم ہو سکتے ہیں۔
اسلام آباد ضلعی بار کے صدر چوہدری خانزادہ کے مطابق حکومت نے گرانٹ دے کر ان پر کوئی احسان نہیں کیا اور نہ ہی گرانٹ لیتے وقت انہوں نے حکومت کو کوئی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس پر دو جولائی کو احتجاج میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ پاکستان بار کونسل کرے گی اور اسی لیے پاکستان بار کونسل کا اجلاس دو جولائی کو طلب کیا گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ دو جولائی کو ہی جسٹس قاضی فائز عیسی کے ریفرنس کے خلاف احتجاج اور دو جولائی کو ہی پاکستان بار کونسل احتجاج کے حوالے سے فیصلہ کرے گی تو اس سے احتجاج کے موثر ہونے پر فرق پڑے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم پاکستان بار کونسل کے ساتھ کھڑے ہیں اور جو فیصلہ وہ کریں گے ہم اسی کے ساتھ ہوں گے۔