امریکہ کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو 20 مارچ 2024 کو کانگریس کی خارجہ امور کی سب کمیٹی کے سامنے آٹھ فروری کے پاکستانی انتخابات کے بارے میں بیان دیں گے، جہاں وہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے کے مختلف پہلوؤں پر بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ان کی اس پہلی عوامی گفتگو کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بقول ان کی حکومت کے خلاف مبینہ امریکی سازش کی بُو انہیں ڈونلڈ لو کی سات مارچ 2022 کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت کاروں کے درمیان ایک ملاقات سے آئی تھی۔
بعد میں یہ واضح ہوا کہ اس ملاقات کی بنیاد پر جو سفارتی کیبل (سائفر) امریکہ سے بھیجی گئی وہ پاکستان کے سفیر اسد مجید نے تحریر کی تھی۔
عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات میں انہیں تفصیل سے اس مکتوب کے بارے میں آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات پاکستان کے سفیر اسد مجید کی امریکہ کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو سے ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں دونوں جانب سے گفتگو نوٹ کرنے والے اہلکار بھی موجود تھے جنہوں نے بعد میں اس گفتگو سے اسلام آباد کو آگاہ کیا۔
اپوزیشن کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے، وزیراعظم عمران خان@ImranKhanPTI #GeoNews pic.twitter.com/YSYO8Dkxrh
— Geo News Urdu (@geonews_urdu) April 3, 2022
اس تنازع کے بعد سے ڈونلڈ لو کا نام اکثر سیاسی گفتگو میں آیا ہے اور وہ یکایک کافی جانی شخصیت بن گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے اہم بن جانے والے یہ امریکی اہلکار کون ہیں جنہوں نے عمران خان حکومت کو دھمکیاں دیں؟
انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق ڈونلڈ لو 1992 سے 1994 کے دوران پشاور میں امریکی قونصل خانے میں پولیٹیکل افسر کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں اور اردو زبان بھی جانتے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیائی امور کے سینیئر سفارت کار مانے جاتے ہیں۔
خارجہ کمیٹی کو مارچ 2024 میں دیئے جانے والے اپنے تحریری بیان میں بھی ڈونلڈ لو نے آغاز 31 سال پہلے پشاور میں ایک جونیئر افسر کے طور پر اس وقت کے پاکستانی انتخابات کو قریب سے دیکھنے کو یاد کر کہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے انتخابی بے ضابطگیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی ووٹروں کی ہمت بھی دیکھی جو تشدد اور دھمکیوں کے باوجود ووٹ دینے آئے۔‘
امریکی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق ڈونلڈ لو 15 ستمبر 2021 کو جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ بنے۔ اس اسائنمنٹ سے قبل، وہ 2018 سے 2021 تک کرغز جمہوریہ میں اور 18-2015 تک البانیہ میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ البانیہ میں اپنی پوسٹنگ سے پہلے، اسسٹنٹ سکریٹری لو نے مغربی افریقہ میں ایبولا کے بحران پر محکمہ خارجہ میں ایبولا ریسپانس کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کیا۔
ڈونلڈ لو ایک فارن سروس آفیسر ہیں جنہوں نے 30 سال سے زیادہ امریکی حکومت کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے بھارت میں ڈپٹی چیف آف مشن (DCM) (2010-13)، چارج ڈی افیئرز (10-2009) اور آذربائیجان میں (09-2007)، اور کرغزستان میں(06-2003) کے طور پر خدمات انجام دیں۔
اپنے کیریئر کے آغاز میں انہیں دفتر برائے وسطی ایشیائی اور جنوبی قفقاز امور، بیورو آف یورپین افیئرز (03-2001) میں ڈپٹی ڈائریکٹر، سیکرٹری آف اسٹیٹ (01-2000)، نئی دہلی میں پولیٹیکل آفیسر، انڈیا (2000-1997)، نئی دہلی، انڈیا (97-1996) میں سفیر کے معاون خصوصی، تبلیسی، جارجیا میں قونصلر افسر (96-1994) اور پولیٹیکل افسر پشاور، پاکستان (94-1992) اور سیرا لیون، مغربی افریقہ میں (90-1988) تک امن کور کے رضاکار کے طور پر کام کرچکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسسٹنٹ سیکرٹری لو کا تعلق کیلیفورنیا کے ہنٹنگٹن بیچ سے ہے۔ انہوں نے پرنسٹن سکول آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز، پرنسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن اور پھر پبلک افیئرز میں ماسٹرز کیا۔ وہ البانی، روسی، جارجیائی، آذربائیجانی، اردو، ہندی اور مغربی افریقی زبان کریو بول سکتے ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق انہیں بائیک چلانا، فلمیں دیکھنا، سفر کرنا اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنا پسند ہے۔
جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کا بیورو، اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو کی قیادت میں امریکہ کی خارجہ پالیسی اور افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، قازقستان، کرغزستان، مالدیپ، نیپال، پاکستان، سری لنکا اور تاجکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو دیکھتا ہے۔
انہوں نے پاکستانی سفیر کے ساتھ ملاقات میں کیا باتیں کیں، اس کی تفصیل تو میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کی گئیں لیکن وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی پر اپنی ناپسندیدگی اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ذکر کیا تھا۔
عمران خان اسمبلی کی تحلیل اور عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کی اپنی حکمت عملی میں اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف یہ سازش بیرون ملک امریکہ میں تیار کی گئی۔ وہ اس سلسلے میں امریکی حکام کے مسلم لیگ ن کی لندن اور پاکستان میں قیادت سے ملاقاتوں کے بھی اشارے دے چکے ہیں۔
البتہ امریکی حکومت نے کسی سازش میں شریک ہونے سے انکار کیا ہے۔
ڈونلڈ لو پاکستان حکام کے لیے کوئی نیا نام نہیں ہیں۔ وہ اکثر پاکستانی حکام سے تعاون اور دیگر امور پر ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ تحریک انصاف حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین سے بھی گذشتہ دنوں ملے اور پاکستان کے واشنگٹن میں سفارت خانے کی جانب سے 16 مارچ کو خواتین سے متعلق ایک ورچوئل اجلاس میں اہم مقرر بھی تھے۔
انہوں نے اپنے کلیدی خطاب میں ملالہ یوسف زئی اور دیگر پاکستانی ممتاز خواتین رہنماؤں کے تعاون پر روشنی ڈالی۔ سفیر لو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس کے بعد پاکستانی سفیر نے ایک ٹویٹ میں ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
انہوں نے امریکہ کی جانب سے کیے گئے مختلف اقدامات اور امریکہ پاکستان خواتین کونسل کے قیمتی تعاون یعنی پاکستان اور امریکہ دونوں میں خواتین کو معاشی بااختیار بنانے کے لیے نجی شعبے، سول سوسائٹی اور حکومتی رہنماؤں کے وعدوں کو عملی جامع پہنانے کے لیے کام کرنے والی سرکاری اور نجی شراکت داری پر بھی روشنی ڈالی تھی۔
عمران خان کے کہنے پر گذشتہ ہفتے بلائی گئی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بظاہر ڈونلڈ لو کی باتوں پر غور ہوا لیکن اجلاس کے بعد جاری بیان میں بھی ان کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ اس سول و ملٹری قیادت کے اجلاس نے ان کی باتوں کو سفارتی آداب کے منافی اور تشویش ناک قرار دیا تھا۔
اب عمران خان نے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا ولن بنا کر پیش کیا ہے۔ تاہم سابق پاکستانی سفیر عبدالباسط نے ایک بیان میں کہا کہ یہ واضح نہیں کہ انہوں نے اس ملاقات میں یہ گفتگو ذاتی حیثیت میں کی یا حکومت کی نمائندگی کے طور پر۔ ’سفارت کار اکثر غلطیاں بھی کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید جنہیں سائفر کیس کی وجہ سے شہرت ملی بھی اپنی مدت مکمل کرکے واپس اسلام آباد پہنچ کر اگست 2023 میں ریٹائر ہوچکے ہیں۔
سائفر کیس میں رواں برس 30 جنوری کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سزا سنائی تھی۔ اس کے بعد ان سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی جس کی سماعت آج کل جاری ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔