کیا آپ وہ ہیں جو ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو کافی پیش کرتی ہیں؟ کیا کسی دفتر چھوڑنے والے ساتھی کے لیے الوداعی تحفے کا انتظام کرنے کے لیے پیسے جمع کرنے کے لیے آپ ہی لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں؟
کیا آپ وہ ہیں جو اپنے ساتھی کی بھولی ہوئی سالگرہ کے لیے آخری لمحات میں کولن دا کیٹرپلر کیک لانے کے لیے سپرمارکٹ جاتی ہیں؟
اچھا تو، میرے پاس آپ کے لیے اچھی خبر ہے۔ آپ انکار کر سکتی ہیں۔
چار ماہرین تعلیم کی ایک نئی کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک سال میں خواتین، بالخصوص اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں ’دفتر کا گھریلو کام‘ کرنے میں 200 گھنٹے زیادہ گزارتی ہیں۔
پروفیسر لنڈا بیبکاک، لیزا ویسٹرلنڈ، برینڈا پیزر اور لوری وینگارٹ نے’دا نو کلب: پٹنگ اے سٹاپ تو وومنز ڈیڈ اینڈ ورک‘ نامی کتاب لکھی ہے۔
وہ استدلال کرتے ہیں کہ اس قسم کا رویہ دراصل خواتین کو زیادہ تر ان مینیجریل کاموں سے روکتا ہے جن کی وجہ سے وہ کیریئر کی سیڑھی پر چڑھتی ہیں۔ یہ ایک بالکل ممکن مفروضہ ہے۔
بہت سی خواتین کو کام پر ’امی‘ ہونے کا تجربہ ہوا ہے۔ گھر میں اپنے بچوں اور ساتھیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ وہ دفتر میں بھی جذباتی بوجھ تلے دبی ہوتی ہیں۔
ان کا کوئی شکریہ بھی ادا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کی کاوشوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دن بھر کی محنت کے بعد آخر میں صرف کاغذی پلیٹوں اور گندے مگوں کا ڈھیر اٹھانے کے لیے بھی وہی بچتی ہیں۔
پروفیسر کہتے ہیں کہ اس کا حل یہ ہے کہ خواتین ’انکار‘ کلب بنائیں جہاں وہ اپنی خواتین دوستوں اور ساتھیوں سے مشورہ لے سکیں کہ اس طرح کے کاموں سے انکار کیسے کرنا ہے، اور وہ وہ بحث کر سکیں جس کے نتیجے میں مالکان ان کاموں کو مساوی طور پر تقسیم کریں۔
سچ پوچھیں تو ایک عورت کے لیے دفتر میں یہ بذات خود مزید ایک انتظامی بوجھ کی طرح لگتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن جذبہ درست ہے۔ اس تحریر کو پڑھنے والی بہت سی خواتین اس پریشانی پر غور کریں گی جو انہیں محسوس ہوتی ہے جب ایک معمولی سا کام بھی کوئی رضاکارانہ طور پر نہیں کر رہا تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ کام کرنے کی پابند ہیں۔ ہم ایسا کرتی ہیں کیونکہ ہمیں اس کی فکر ہوتی ہے کہ اگر ہم نہ کریں تو کیا ہو۔
یہ کتاب پری آرڈر کے لیے دستیاب ہے لہذا اس سے پہلے کہ میں اس میں درج مشوروں کو عملی جامہ پہنا سکوں تھوڑا سا وقت ہو جائے گا، لیکن اس دوران میں سرگرمی سے رضاکارانہ طور پر کام نہ کرکے اپنے اندرونی امن اور ترقی کے امکانات تلاش کرتی رہوں گی۔
ایسا لگتا ہے کہ ساتھیوں کو چائے بنانے کی پیشکش نہ کرنا بدتمیزی اور غیر ملنسار ہے، لیکن مجھے یہ ہمیشہ وقت کا ضیاع لگا۔ اگر مجھے چائے کی ضرورت ہے تو میں اپنے لیے بنا لوں گی۔ مجھے سماجی ذمہ داری کی وجہ سے چیمپئن بننے اپنے پورے ڈیسک کے لیے کچھ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
میرے پاس دیگر کام بھی ہیں، جیسے کسٹمرز کے ساتھ ایسی دکان پر کافی پینے کے لیے رابطے کرنا، جس کا مالک دودھ کا فوم بنانے اور پانی ابالنے کا ماہر ہے۔
اور یقیناً، یہ اچھا ہے کہ آپ کی سالگرہ پر آپ کو یاد رکھا جائے۔ لیکن ضروری ہے کہ کارڈز اور تحفوں کو جمع کرنا متعلقہ شخص کے منیجر باری باری کریں کیونکہ یہ بہتر ہے کہ ٹیم میں کسی سینیئر کی طرف سے اسے مناسب طریقے سے سمجھا اور تسلیم کیا جائے۔
درحقیقت، نا چاہتے ہوئے بھی شائد وہی شخص اسی کام کے لیے چن لیا جائے: ’جینیٹ، آپ کارڈ ز کا انتخاب کرنے میں بہت اچھی ہیں، آپ کو جانا چاہیے.‘ نہیں، خیالی جینیٹ، آپ کے پاس کرنے والے کاموں کی فہرست پہلے ہی بہت لمبی ہے، انکار کردیں۔
یقیناً، ایک ٹیم کی حوصلہ افزائی بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اور کاروبار اور فلاح و بہبود کے لیے اچھی ہے، لیکن اگر ہمیں اس پر یقین ہے تو اس کام کو ٹیم کے مقاصد پورے کرنے کے لیے اہم حصہ تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اگر نہیں، تو پھر پریشان نہ ہوں۔ یہ ویسے بھی مجبوری اور جھوٹا محسوس ہوگا۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خواتین انکار کرنے کی بجائے اس کے بدلے بونس یا ایک ہفتے کی چھٹی مانگیں؟ مجھے یقین ہے کہ اس صورت حال کی حوصلہ افزائی اسے مزید دلکش بنا دے گی لیکن اس وقت تک اس حقیقت میں سکون سے رہیں کہ صرف ٹوٹی ہوئی چیزیں ہی جوڑی جا سکتی ہیں اور بلا جھجھک مدد کرنے کی اگلی خواہش کو نظر انداز کریں۔
کام کرنے کی جگہ پر صنفی مساوت کا انحصار اسی پر ہے۔
© The Independent