پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان 22 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ دفترِ خارجہ کے ذرائع کے مطابق عمران خان اگلے ماہ کی 20 تاریخ سے امریکہ کا سہ روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ یہ ملاقات امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہو گی۔ وفود کی سطح پر ملاقات کے علاوہ اس دورے میں صدر ٹرمپ اور ون آن ون ملاقات 22 جولائی کو ہو گی۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اس دورے میں وزیرِ اعظم کے ہمراہ ہوں گے۔ اس دورے میں پاک امریکہ دو طرفہ امور، افغان امن عمل، تجارت، معیشت، سمیت دیگر اہم امور زیر غور آئیں گے۔
امریکی سینیٹر لنزی گریم نے بھی ملاقات کا عندیہ دیا تھا
امریکی سینیٹر لنزی گریم نے رواں برس جنوری میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں اُن کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کا اشارہ بھی دیا تھا۔ انہوں نے میڈیا سے بات چیت میں یہ کہا تھا کہ ’پاکستانی وزیراعظم ،افغان صدر اور امریکی صدر کو ملنے کی ضرورت ہےطالبان مذاکرات کے حوالے سے پاکستان موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان اور ٹرمپ کو اس لیے بھی ملنا چاہیے کہ دونوں ایک جیسی شخصیت کے حامل ہیں۔‘
رواں برس مارچ میں صدر ٹرمپ نے بھی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں میڈیا نمائندگان سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ “میرے خیال میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ اور میں مستقبل قریب میں پاکستانی سربراہ سے ملاقات بھی کروں گا۔”
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ملاقات کی تصدیق کی
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ملاقات کے لیے جون کا اشارہ ملا تھا لیکن پاکستان میں بجٹ کی وجہ سے وزیر اعظم کا ملک سے باہر جانا مشکل تھا۔ تاہم اسلام آباد اور واشنگٹن نئی تاریخوں کے حوالے سے رابطے میں تھے۔
کیا پاک امریکہ تعلقات ’ڈو مور‘ سے نکلیں گے ؟
سابق ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ تسنیم اسلم نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’ یہ دعوت امریکہ کی جانب سے دی گئی ہے تو امریکہ نے یقینی طور پہ ایجنڈا بھی طے کیا ہو گا لیکن جہاں تک بات ڈو مور کی ہے تو وزیراعظم عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کے لیے بصاعت سے بڑھ کر کیا اور اُن کی شروع کی ہوئی جنگ کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اس لیے پاکستان اب ڈو مور سے نکل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب گیند امریکہ کے پاس ہے ڈو مور اب امریکہ نے کرنا ہے کیوں کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔‘
سابق سفیر عبدالباسط سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت مثبت ہے کہ دونوں سربراہان کی ملاقات ہو رہی ہے اور واشنگٹن کی دعوت پر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب دو سربراہان ملتے ہیں تو معاملات بہتری کی طرف ہی جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں افغان امن، پاک بھارت ، کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر بات ہو گی۔ کیونکہ صدر ٹرمپ کی حال ہی میں بھارتی وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ ہو گا کہ نہیں؟ اس پر اُن کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ کا ہمیشہ کا مطالبہ ہے جو کہ شاید اب بھی رہے لیکن پاکستان اب اُس سے نکل چکا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینئیر سفارتی صحافی و اینکر پرسن شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’جب باہمی دو طرفہ ملاقات ہوتی ہے تو دونوں ممالک کے درمیان موجود تمام معاملات پر تفصیل سے بات چیت کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے مثبت بات یہ ہے کہ اس ملاقات کی خواہش اور دعوت صدر ٹرمپ کی جانب سے ہے۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ برس عمران خان اور ٹرمپ کے درمیان ٹوئٹر پر تو تو میں میں ہوئی تھی لیکن اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی محاذ پر برف پگھلتی نظر آ رہی ہے۔
اس کے ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب رواں برس فروری میں بھارت نے پاکستان کے اندر حملہ کیا تو صدر ٹرمپ نے اس موقعے پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔
گذشتہ چھ ماہ اسلام آباد اور امریکی حکام کے درمیان ملاقات کی کوششیں جاری تھیں۔