پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ہفتے کی رات ایک بیان میں کہا کہ ’20 اور 21 دسمبر 2024 کی رات کو خوارج کے ایک گروہ نے ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔‘
بیان کے مطابق اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں 16 فوجی جوان جان سے گئے، جب کہ آٹھ عسکریت پسند بھی مارے گئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہدایت اللہ نے بتایا کہ ’اس حملے میں 16 سکیورٹی اہلکار شہید اور آٹھ زخمی ہوئے۔ علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے افغانستان کی سرحد کے قریب ایک فوجی چوکی پر ہفتے کی رات حملہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس کے بارے میں انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں 16 فوجی جان سے گئے اور پانچ شدید زخمی ہوئے ہیں۔
ایک سینیئر انٹیلی جنس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ محاصرہ آدھی رات کے بعد شروع ہوا اور تقریبا دو گھنٹے تک جاری رہا جب تقریباً 30 عسکریت پسندوں نے پہاڑی چوکی کو تین اطراف سے نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ’حملے میں 16 فوجی شہید اور پانچ شدید زخمی ہوئے۔ عسکریت پسندوں نے چیک پوسٹ پر موجود وائرلیس مواصلاتی آلات، دستاویزات اور دیگر اشیا کو آگ لگا دی۔‘
ایک دوسرے انٹیلی جنس اہلکار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نے افغان سرحد سے 40 کلومیٹر دور صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے مکین میں ہونے والے حملے میں اموات اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کی تصدیق کی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے یہ اپنے سینیئر کمانڈروں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے کیا ہے۔‘
کالعدم گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے مشین گنوں اور نائٹ ویژن ڈیوائس سمیت فوجی سازوسامان کا ذخیرہ قبضے میں لے لیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق گذشتہ سال اموات کی تعداد چھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جس میں 1500 سے زائد عام شہری، سکیورٹی اہلکار اور عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
انٹیلی جنس کے سینیئر اہلکار کے مطابق ہفتے کو جو حملہ ہوا وہ ’اس خطے میں رواں سال کا سب سے خطرناک حملہ‘ تھا۔