’جیسے ہی الیکشن شیڈول کا اعلان ہوا تو میں بھی ریٹرننگ افسر کے پاس گئی کہ میں اپنی برادری کے لیے مخصوص نشست پر انتخاب میں حصہ لوں گی، مجھے بھی نامزدگی کا فارم دیا جائے۔ ریٹرننگ افسر ہنسا اور کہا کہ آپ کی نامزدگی کا مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ آپ انتظار کریں۔‘
یہ کہنا ہے بے بی فقیر بلیدی کا جو کہ ضلع خیرپور میں تحصیل کوٹ ڈیجی کی رہائشی ہیں۔ بے بی فقیر نے بتایا کہ ’مجھ سے ابھی تک کسی جماعت نے رابطہ نہیں کیا، تاہم میں نے ایک درخواست پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما کے دفتر میں جمع کرا دی ہے کہ مجھے خواجہ سرا کی مخصوص نشست پر امیدوار نامزد کیا جائے۔‘ یہ بات کہتے ہوئے بے بی فقیر نے تسلیم کیا کہ ’مجھے اب بھی کچھ پتہ نہیں کہ ہمارا انتخاب کس طرح ہوگا، کب ہوگا اور مجھے کن شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔‘
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت صوبہ سندھ میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات دو مرحلوں میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے شیڈول کے مطابق پہلے مرحلے میں صوبے کے چار ڈویژنوں ۔ سکھر، حیدرآباد، شہید بےنظیر آباد اور لاڑکانہ کے 14 اضلاع میں انتخابی عمل شروع کردیا گیا ہے۔
جنرل نشستوں کے امیدوار 10 سے 13 مئی 2022 تک کاغذات نامزدگی جمع کراسکیں گے جبکہ پہلے مرحلے کی پولنگ 26 جون 2022 کو منعقد ہوگی۔ جب کہ ایک ماہ کے وقفے سے دوسرے مرحلے کی پولنگ 28 جولائی کو منعقد کی جائے گی۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان ہارون شنواری نے رابطہ کرنے پر بتایا ہے کہ ’یونین کونسلوں، یونین کمیٹیوں، میونسپل کمیٹیوں، ٹاؤن میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل کارپوریشنوں اور میٹروپولیٹن کارپوریشنوں کے چیئرمین، وائس چیئرمین، میئر، ڈپٹی میئر اور کونسلروں کا انتخاب ہو جانے کے بعد سندھ کے بلدیاتی قانون کے مطابق خواجہ سراؤں کا انتخاب پارٹیوں کی ترجیحی فہرست کی بناء پر ہو گا۔‘
پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ نے 'سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے سیکشن 17 میں ترمیم کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کو نمائندگی دینے کی منظوری صوبائی اسمبلی سے حاصل کی۔ سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2021 کے مطابق خواجہ سراؤں کے لیے صرف ٹاؤن میونسپل کارپوریشنوں میں 5 فیصد نمائندگی یعنی ایک نشست مختص کی گئی ہے۔ صوبے میں کل 45 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنیں قائم ہوں گی۔
خواجہ سراؤں کا ایک دیرینہ مطالبہ تو پورا ہوا ہے تاہم اس ضمن میں کئی ایسے مسئلے بھی موجود ہیں جن کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے۔ خواجہ سراؤں سے ہونے والے رابطوں کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواجہ سراؤں کی ایک بڑی تعداد کے پاس اب بھی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ موجود نہیں حالانکہ وفاقی حکومت اور نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ کے اجرا سے متعلق خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔
بلدیاتی اداروں میں منتخب ہونے کے لیے دیگر شہریوں کی طرح خواجہ سراؤں پر بھی لازم ہے کہ ان کا اپنے رہائشی علاقے میں ووٹ داخل ہو۔ شناختی کارڈ، مستقل پتہ اور ذاتی گھر نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کی ایک بہت بڑی تعداد کا ووٹ بھی داخل نہیں۔ جبکہ ان مسائل کو حل کرنے کی غرض سے خواجہ سراؤں کا رویہ بھی زیادہ ذمہ دارانہ نظر نہیں آتا۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق صوبہ سندھ میں خواجہ سراؤں کی آبادی 2 ہزار 527 ہے اور 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے خواجہ سرا ووٹڑز کی تعداد 421 ہے۔
انتخابی معاملات سے متعق خواجہ سراؤں کی لاعلمی پر بات کرتے ہوئے لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے تنویر فقیر نے کہا کہ ’حکومتی سطح پر ہمیں آگہی دینے کی کوئی مہم نہیں چلتی، سماجی ادارے کچھ کام کرتے ہیں لیکن ہماری برادری ایسے کاموں کو وقت کا ضیاع قرار دے کر ووٹ کے اندراج اور شناختی کارڈ کے حصول کے لیے اقدامات کرنے سے گریز کر جاتی ہے۔‘
سکھر سے تعلق رکھنے والے زاہدہ فقیر نے کہا کہ ’ہمارے گرو کو پتا ہوگا کہ ہمارا الیکشن کیسے ہوگا اور کس کو ٹکٹ دی جائے گی۔‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ سرا محروم طبقہ ہیں لیکن معاشرے کے اس طبقے کے اندر بھی دیگر طبقات کی طرح ہی چند افراد ہی فیصلہ کن حیثیت کے مالک ہیں۔ سکھر ڈویژن میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے صنم فقیر کو کئی خواجہ سرا اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ عام خواجہ سراؤں کی نسبت صنم فقیر اس معاملے سے متعلق زیادہ باخبر تھیں۔
رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ’ہم تب تک مخصوص نشست پر منتخب نہیں ہوسکتے جب تک کہ کوئی پارٹی ہمیں ٹکٹ جاری نہیں کرے گی۔ پیپلز پارٹی سکھرکی قیادت نے مجھے پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘
سندھ اسمبلی سے ترمیمی قانون کی منظوری حاصل کرنے سے قبل ہی پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی قیادت میں کراچی سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات کی جنہوں نے اپنی رہنما بندیا رانا سمیت پیپلز پارٹی میں باضابطہ شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
ایسا اعلان کسی دوسری جماعت کے لیے اب تک سامنے نہیں آسکا ہے جبکہ صوبے کے خواجہ سراؤں کی ایک بڑی اکثریت پیپلز پارٹی میں ہی شامل ہونے کو ترجیح دیتی نظر آ رہی ہے۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر جینڈر الائنس کے رہنما بندیا رانا نے کہا کہ ’کراچی کی ٹاؤن میونسپل کارپوریشنوں میں مخصوص نشست پر پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ جماعتیں تو اور بھی ہیں لیکن ہم پیپلز پارٹی کو باقیوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عام خواجہ سراؤں میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق معلومات کا فقدان ہونا تو شاید اس وجہ سے بھی زیادہ حیرانی کی بات اس لیے نہیں کہ وہ کبھی انتخابی سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہے۔ لیکن ماسوائے پیپلز پارٹی کے صوبے کی باقی تمام جماعتیں بھی خواجہ سراؤں کو اپنی سیاست میں شامل کرنے اور مخصوص نشستوں پر نامزد کرنے کی ضمن میں غیرفعال نظر آ ئیں۔
خواجہ سراؤں کی نامزدگی کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے رابطہ کرنے پر اس جماعت کی میڈیا ونگ میں کام کرنے والے ذمہ داران نے موقف دیا کہ ’چونکہ ابھی مخصوص نشستوں پر انتخاب کے لیے کافی وقت پڑا ہے اس لیے ان کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس فیصلے نہیں کیے گئے، لیکن جماعت کی جانب سے جلد ہی حکمت عملی وضح کی جائے گی۔‘
جماعت اسلامی کی قیادت کا آف دی رکارڈ جواب بھی لگ بھگ ایسا ہی تھا جبکہ جمیعت علمائے اسلام (ف) سکھر کے ضلعی جنرل سیکریٹری مولانا محمد صالح انڈھڑ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ’خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور ان سے کسی بھی امتیاز کے حامی نہیں تاہم کوئی بھی خواجہ سرا ہماری جماعت کا رکن نہیں نہ ہی ہم خواجہ سراؤں سے پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواستیں وصول کر رہے ہیں۔ اگر کسی خواجہ سرا نے درخواست دی تو اس پر غور کیا جائے گا۔‘
اس تمام تر صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ خواجہ سراؤں کو باعزت تشخص دینے کے لیے سندھ حکومت نے مثبت قدم اٹھایا ہے تاہم عوامی سطح پر آگہی کے فقدان کی وجہ سے وہ انتخابی عمل سے متعلق لاعلمی کا شکار ہیں۔ اس وجہ سےان کی نمائندگی کرنے والوں کی نامزدگی بھی جمہوری تقاضوں کے عین مطابق نہیں ہوسکے گی۔