زمانہ طالب علمی میں بیشتر طلبہ بیرون ملک سکالر شپس یا فیلو شپس کے حصول کی دوڑ دھوپ میں لگے ہوتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے علاوہ ہمارا پڑوسی ملک چین بھی پاکستانی طلبہ کو سکالرشپس دینے میں پیش پیش ہے اور بہت سے طلبہ ان سے فائدہ اٹھا بھی رہے ہیں۔
دوسری جانب کچھ ایسے بھی طلبہ ہیں جو ابھی سکالر شپس کی درخواست دینے کے عمل سے گزر رہے ہیں یا اس بارے میں سوچ رہے ہیں۔
ایسے ہی طلبہ کی رہنمائی کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے چین میں تعلیم حاصل کرنے والے کامران امین سے بات کی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے کامران نے CAS TWAS فیلوشپ پروگرام کے تحت چین سے پی ایچ ڈی کی اور اب چین ہی کے نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اور ٹیکنالوجی میں سپیشل ریسرچ اسسٹنٹ اور یونیورسٹی آف برسٹل، انگلینڈ میں وزیٹنگ ریسرچر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
کامران نے اپنی گفتگو میں ریسرچ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے چین جانے کے خواہش مند طلبہ کے لیے چند مفید ٹپس بھی دیں۔
ذیل میں اس گفتگو کو سوال جواب کی صورت میں بیان کیا جارہا ہے۔
سوال: چین میں سکالر شپ یا فیلو شپ کے لیے اگر کوئی اپلائی کرنا چاہے تو اس کے لیے پہلا طریقہ کیا ہوگا؟
جواب: جو طلبہ سکالر شپ یا فیلو شپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں کچھ ویب سائٹس پر نظر رکھنی پڑے گی۔ کچھ چین کی آفیشل ویب سائٹس ہیں جیسے کہ کیمپس چائنا ڈاٹ او آرجی۔ اسی طرح چین کی مشہور آنسو سکالر شپ ہے۔ اسی طرح چائنیز سکالرشپ کونسل (سی ایس سی) کی بھی ویب سائٹ ہے۔
کچھ فیس بک گروپس بھی ہیں، جہاں چین میں ہی زیر تعلیم طلبہ دیگر طلبہ کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔
سوال: چینی یونیورسٹیوں میں زیادہ تر کن شعبوں میں سکالر شپ ملتی ہیں؟
جواب: چین میں زیادہ تر اپلائیڈ سائنسز کے شعبوں میں طلبہ کو سکالر شپس دی جاتی ہیں اور بالکل شروع سے ہی انہیں جدید ترین آلات اور ساز و سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سوشل سائنسز کے لوگوں کو بھی سکالر شپس فراہم کی جاتی ہیں لیکن اپلائیڈ سائنسز کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔
سوال: کیا یہ سکالرشپس فلی فنڈڈ ہوتی ہیں یا اپنی جیب سے بھی پیسے لگانے پڑتے ہیں؟
جواب: چین کی سکالر شپس کی اچھی بات یہ ہے کہ اس میں اپنی جیب سے خرچہ نہیں کرنا پڑتا اور یہ فلی فنڈڈ ہیں جبکہ ان کا ایپلی کیشن پراسس (درخواست دینے کا عمل) بھی بالکل مفت ہے۔ کچھ جزوی ایپلی کیشننز بھی ہیں، جہاں تعلیم تو فری ہے لیکن رہائش کا انتظام آپ کو خود کرنا پڑے گا۔
سوال: وہاں کا معیار تعلیم اور رہن سہن کا طریقہ کیسا ہے؟
جواب: جو بھی چین جانے کا خواہشمند ہے، وہ یہ اچھی طرح سے جان لے کہ ریسرچ بہت ضروری ہے۔ وہاں کی تعلیم ریسرچ بیسڈ ہے۔ جن طلبہ کا ریسرچ کا تجربہ ہو تو ان کے لیے بہت بہتر ہوتا ہے۔ چینی کام لیتے ہیں اور دبا کے کام لیتے ہیں۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ چین میں جو لوگ پڑھنے جاتے ہیں، وہ گھومتے پھرتے رہتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ ہم صبح آٹھ بجے جاتے تھے اور رات 11، 12 بجے لیب سے باہر نکلتے تھے۔ ہاں ویک اینڈ پر کہیں آ جاسکتے ہیں۔ سکالر شپ یا فیلو شپ میں پیسے بھی بہت اچھے ہوتے ہیں، سہولیات بہت اچھی ہوتی ہیں۔
اسی طرح اگر رہن سہن یا کھانے پینے کی بات کریں تو مسلمان طلبہ کے لیے حلال ریسٹورنٹ بھی موجود ہیں۔ مذبح خانے بھی ہیں، غرض کسی قسم کے مسائل نہیں ہوتے۔
سوال: چین میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے انگریزی زبان کتنی ضروری ہے؟ اور کیا انگریزی کی مہارت جاننے کے لیے IELTS جیسے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں؟
جواب: چین کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں انگریزی زبان کی مہارت جاننے کے لیے ٹیسٹ کی شرط نہیں ہے لیکن اب پیکنگ یونیورسٹی نے انگریزی کے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا ہے، لیکن بیرون ملک جانے والے طلبہ کی انگریزی زبان بہتر ہونی ضروری ہے۔
چین جانے والے طلبہ دو طرح کے پروگرامز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ چائنیز ڈاٹ پروگرام میں ہر چیز چینی زبان میں پڑھنی پڑتی ہے اور انگلش ڈاٹ پروگرام میں ہر چیز انگریزی زبان میں ہوتی ہے۔
بہت سے پاکستانی طلبہ بھی چائنیز ڈاٹ پروگرام میں حصہ لیتے ہیں اور اس میں ایک سہولت یہ ہے کہ وہ اپنا تھیسز بعد میں انگریزی میں ترجمہ بھی کروا سکتے ہیں۔
سوال: کیا چین جانے والوں کے لیے چینی زبان سیکھنا بھی ضروری ہے؟
جواب: چین میں تعلیم کے حصول کے لیے آنے والے غیر ملکی طلبہ کے لیے چینی زبان سیکھنے کی کوئی شرط نہیں ہے، آپ چینی زبان کا ایک حرف جانے بغیر بھی وہاں اپلائی کرسکتے ہیں، لیکن دوران تعلیم آپ کو چینی زبان کا چھ ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس ضرور کرنا پڑتا ہے، جو آپ ڈگری کے دوران بھی کرسکتے ہیں اور وہ یونیورسٹی والے خود کرواتے ہیں۔
اس کورس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ شاپنگ کے وقت دکان داروں سے چینی زبان میں بھاؤ تاؤ کرسکتے ہیں یا ضروری بات چیت چینی زبان میں کرسکتے ہیں۔
سوال: کیا چین کا تعلیمی نظام امریکی تعلیمی نظام سے بہتر ہے؟
جواب: اگر چینی یا امریکی نظام تعلیم کے موازنے کی بات ہے تو دونوں کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ امریکہ کا سسٹم بہت پہلے سے ایڈوانسڈ ہے جبکہ چین میں 2000 کی دہائی میں ایڈوانسڈ ریسرچ پر زور دیا گیا، لیکن جو طلبہ ریسرچ کرنے کے عادی ہیں، وہ چاہے امریکہ میں ہوں یا چین میں، وہ کہیں بھی کام کرلیں گے۔
سوال: ایسے طلبہ جو چین میں سکالر شپ حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس عمل سے گزر رہے ہیں، ان کے لیے کوئی مشورہ یا ٹپس دینا چاہیں گے؟
جواب: اگر آپ چین جارہے ہیں تو ریسرچ کا ذہن بنا کر جائیں۔ چاہے آپ مریخ پر چلے جائیں، ریسرچ آپ نے خود ہی کرنی ہے۔ وہ (چینی) کہتے ہیں کہ یہ آپ کا ٹاپک ہے، یہ ہماری لیب ہے، ہم آپ کو پیسے، آلات، سازوسامان سب دیں گے لیکن کام آپ نے خود کرنا ہے۔