بھارت میں ایک بزرگ جوڑے نے اپنے اکلوتے بیٹے اور بہو کے خلاف عجیب و غریب مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ انہیں پوتا/پوتی دینے میں ناکام رہے ہیں۔
شمالی ریاست اتراکھنڈ کے ہری دوار شہر کے رہائشی سنجیو رنجن پرساد اور ان کی اہلیہ سادھنا پرساد نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ ایک سال کے اندر بچہ پیدا نہ کر سکنے کی صورت میں وہ (بیٹا اور بہو) 50 ملین بھارتی روپے ادا کریں۔
پرساد نے 2016 میں ’پوتے/پوتی کی امید‘ میں بیٹے کی شادی کرنے کے بعد مقدمہ دائر کرنے کے لیے مالی مشکلات کا حوالہ دیا ہے۔ بزرگ میاں بیوی نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کی ’بہو اور ان کا خاندان ان کے بیٹے کے مالی معاملات کو کنٹرول کرتے ہیں اور انہیں بچہ پیدا کرنے سے بھی روک رکھا ہے۔‘
پرساد نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ: ’ہمیں صنف کی پرواہ نہیں، ہمیں صرف بیٹے کی اولاد چاہیے۔‘
بھارت میں خواتین سے توقع کی جاتی ہے اور اکثر انہیں مجبور بھی کیا جاتا ہے کہ شادی کے بعد چند سالوں کے اندر بچے پیدا کریں۔
بھارت میں روایتی خاندانوں میں پدرسری کی وجہ سے اکثر پہلی اولاد کے طور پر بیٹے کی توقع کی جاتی ہے۔ حالانکہ ملک کے بہت سے حصوں میں جنسی تناسب اس کے بالکل برعکس ہے۔
سنجیو رنجن پرساد نے دعویٰ کیا کہ انہیں اپنا سارا پیسہ امریکہ میں اپنے بیٹے کی تعلیم پر خرچ کرنا پڑا اور اب وہ مالی بحران سے گزر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ:’میں نے اپنے بیٹے کو اپنے تمام پیسے دے دیئے، اسے امریکہ میں تربیت دلائی۔ میرے پاس اب پیسے نہیں ہے۔ ہم نے گھر بنانے کے لیے بینک سے قرض لیا ہے۔ ہم مالی اور ذاتی طور پر پریشان ہیں۔‘
پرساد نے مزید کہا کہ:’ہم نے بیٹے اور بہو سے 25 ملین بھارتی روپے کا مطالبہ کیا ہے۔‘
سات مئی کو عدالت کے سامنے دائر درخواست میں مسٹر پرساد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے اکلوتے بچے کی پرورش کے لیے تقریبا 20 ملین بھارتی روپے خرچ کیے، یہ رقم ان کی استطاعت سے زیادہ تھی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پرساد نے قرض کے پیسوں سے بیٹے اور بہو کے لیے ایک مہنگی کار خریدی اور تھائی لینڈ میں ان کے ہنی مون کے لیے پانچ لاکھ بھارتی روپے ادا کیے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ان کا بیٹا جو تجارتی ایئر لائن میں پائلٹ ہے، جنوبی بھارت کے شہر حیدرآباد ہو گیا، اس نے اپنی بیوی کے نام پر ایک گھر خریدا اور اپنے والدین کے ساتھ بات کرنا چھوڑ دیا ہے۔
پرساد نے درخواست میں الزام لگایا کہ جب انہوں نے اپنے بیٹے پر پوتا/پوتی کے لیے دباؤ ڈالا تو اس جوڑے نے علیحدہ ہونے کا’ڈرامہ‘ کیا کیونکہ وہ دونوں اپنی ملازمتوں کی وجہ سے مختلف شہروں میں رہتے ہیں۔
پرساد اور ان کی اہلیہ کی وکالت کرنے والے وکیل اے کے سریواستو نے دلیل دی کہ بزرگ جوڑا اپنے مالی اور جذباتی نقصان کے لیے معاوضہ طلب کر رہا ہے۔
اس جوڑے کو یہ آزادی ہے کہ وہ بچے کو جنم نہ دے، یہی وجہ ہے کہ ہم معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ صرف وہ رقم ہے جو پرساد نے اپنے بیٹے کی پرورش پر خرچ کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے نئے کیسز اہم ہیں کیونکہ ان سے نئے قوانین کی بنتے ہیں۔ عدالت میں اس کیس کی سماعت 17 مئی کو ہو گی۔
© The Independent