افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے امریکی ٹی وی سی این این کو دیے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ امریکہ کو فی الحال اپنا دشمن تصور نہیں کرتے۔
سی این این کی نامہ نگار کرسٹیانا امانپور کو دیے جانے والے اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں ایک چھوٹی سی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اپنے ملک کے دفاع اور جنگ کی صورتحال تھی۔ جب دوحہ میں معاہدہ ہوا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اس کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مستقبل میں ہم امریکہ اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ان اصولوں اور قوانین کے مطابق اچھے تعلقات رکھنے کے خواہشمند ہیں جو بقیہ دنیا میں موجود ہیں۔ اور اسی بنیاد پر ہم نے معاہدہ کیا تھا اور فی الحال ہم انہیں اپنے دشمن کے طور پر نہیں دیکھتے۔‘
Does the Taliban still consider America its enemy? Deputy Leader Sirajuddin Haqqani claims no: “Currently we do not look at them as enemies, and we have time and again spoken about diplomacy.” pic.twitter.com/HAU8YnxICW
— Christiane Amanpour (@amanpour) May 16, 2022
سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ’لیکن ان کے برتاؤ کی بنیاد کی افغان شہریوں کو ان کے ارادوں کے بارے میں تحفظات ہیں۔ ہماری جانب سے ملک کی آزادی اور ملکی دفاع کے لیے جدوجہد ایک قانونی حق ہے۔‘
افغان وزیر داخلہ نے کہا کہ ’بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے فی الحال ہم امریکہ کی جانب دشمن کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ ہمارے پاس وقت ہے اور ہم سفارتکاری کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ہم دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔‘
ایک سوال کہ امریکہ ایک جانب انہیں ایسا ’دہشتگرد‘ بھی کہتا ہے جس کے ہاتھ پر سینکڑوں امریکیوں کا خون ہے اور دوسری جانب سراج الدین حقانی کے ساتھ کام بھی کرنا چاہتا ہے کے جواب میں سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ’میں یہ کہوں گا یہ فیصلہ انہیں کرنا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ شدید جنگ لڑی ہے۔ اور اپنے اور اپنے ملک کے دفاع میں ہمارا جواب بھی وہی تھا۔ لیکن حکومت بنانے اور معاہدہ کرنے کے لیے ہم نے دنیا اور اپنے لوگوں مثبت پیغام دیا ہے۔‘
The US has a $10 million reward for the arrest of Sirajuddin Haqqani, who is now the acting Interior Minister of Afghanistan. In an exclusive interview, I asked Haqqani about this and whether Afghanistan will again become a base for international terrorism. pic.twitter.com/Yyz9kwxfB8
— Christiane Amanpour (@amanpour) May 16, 2022
ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اب بھی آپ امریکہ کے ساتھ اس وعدے پر قائم ہیں کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک کے خلاف ’دہشتگردی‘ کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور داعش خراسان کے حالیہ حملے افغانستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی جانب اشارہ نہیں کرتے؟
اس سوال کے جواب میں افغان طالبان کے رہنما اور ملک کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ’جو وعدے ہم نے کیے ہیں اگر آپ ان کا جائزہ لیں تو دوحہ معاہدے کے 14 ماہ گزر جانے کے باوجود مخالف سمت سے ہم پر حملے کیے گئے لیکن ہماری قیادت کی جانب سے ہم کو معاہدے کی پاسداری کرنے کو کہا گیا۔ یہاں تک کہ کابل پر کنٹرول حاصل کرنے تک ہم پر امن طریقوں سے حکومت بنانے کی کوشش کرتے رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اندرونی خطرات کا سامنا ہے اور ان میں سے چند کو جان بوجھ ایسے ظاہرکیا جا رہا ہے کہ جیسے کہ وہ قوم اور بین الاقوامی برادری کے لیے بڑے خطرے کی بات ہے۔ ’لیکن ہم دنیا بھر کو یہ بھرپور انداز میں یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہماری سرزمین کسی کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔‘
سی این این کی نامہ نگار نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی بیٹی کو سیکنڈری سکول بھیجنے کے حق میں ہیں تو افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا کہ ’ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں علم خدا کی جانب سے ایک رحمت ہے جو مرد و خواتین کے لیے حاصل کرنا لازمی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ کوئی بھی تعلیم حاصل کرنے کی مخالفت نہیں کرتا لیکن مسئلہ یہ کہ تعلیم افغان سوچ سمجھ اور ثقافت کے مطابق ہو۔‘
In an exclusive interview, Taliban dep. leader & Afghan Interior Minister Sirajuddin Haqqani indicates reopening of girls’ secondary schools depends on dress codes: “We must establish the conditions, so that we can ensure their honor and security. We are acting to ensure this.” pic.twitter.com/yxuuV4oXrU
— Christiane Amanpour (@amanpour) May 16, 2022
انہوں نے بتایا کہ ملک میں اسلامی اصول اور قوانین بنانے کا ایک مسئلہ ہے۔ افغانستان میں وسیع پیمانے پر حجاب کا مسئلہ ہے کیوں کہ اگر کوئی اپنی بیٹی یا بہن کو بھیجتا ہے تو وہ یہ کام مکمل اعتماد کے ساتھ کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خواتین کے وقار اور تحفظ دونوں کی ضمانت دے سکیں اور وہ وہی کر رہے ہیں۔