لاہور میں عارضی مقیم سرگودھا سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی زاہد عباس ملک بدھ کےروز دفتر جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئے تھے۔
ان کے کزن عامر رضا کے مطابق انہیں دو دن تک مسلسل فون بند رہنے پر علم ہوا کہ زاہد عباس لاپتہ ہوگئے ہیں۔
اس بارے میں پولیس کو اندراج مقدمہ کی درخواست دی گئی جو بعد میں خارج کر دی گئی ہے اور ابھی تک مقدمہ بھی درج نہیں ہو سکا۔
لاہور پریس کلب کی جانب سے زاہد عباس کے لاپتہ ہونے پر احتجاج بھی کیاگیا ہے اور صحافی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ اگر انہیں کسی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے تو مقدمہ درج کر کے گرفتاری سامنے لائی جائےاور انہیں عدالت پیش کیا جائے۔
تھانہ اچھرہ کےمتعلقہ پولیس افسر مقصود احمد کے بقول کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں درخواست موصول ہونے اور خارج ہونے کا میسج چلا گیا ہوگا مگر ہم لوکیشن ٹریس کر رہے ہیں تاہم مقدمہ درج نہیں ہوسکا۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
لاپتہ ہونے والے سینئر صحافی زاہد عباس ملک گزشتہ تیس سال سے لاہور کے مختلف صحافتی اداروں میں کام کر رہےہیں ان دنوں وہ دنیا میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں۔
عامر رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہویے کہاکہ زاہد کا تعلق سرگودھا سے ہے، وہ چار بچوں کے باپ ہیں اور نوکری کےسلسلہ میں وہ اکیلے لاہور مقیم تھے۔
’انہوں نے اچھرہ میں فلیٹ کرائے پر لیا ہوا ہے اور ایک دوست جو ڈاکٹر ہیں، ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ بدھ کے روزانہیں کال کی تو فون بند تھا دو دن تک انتظار کیا لیکن فون آن نہ ہوا تو تشویش ہوئی۔ میں دو دیگر رشتہ داروں کے ساتھ لاہور آیا۔ جب ان کے فلیٹ پر گئے تو دروازے کھلے تھے اور سامان بکھرا پڑا تھا جیسے کسی نے تلاشی لی ہو۔ اس کے بعد ان کے ساتھ رہنے والے ڈاکٹر کو فون کیا تو انہوں نے بتایا وہ شہر سے باہر گئے ہیں اور انہیں اس بارے میں علم نہیں ہے۔‘
عامر رضا کے بقول انہوں نے دفتر فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بدھ سے دفتر بھی نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے دفتر کواطلاع یا چھٹی کی درخواست دی۔ ’لہذا ہم متعلقہ تھانہ اچھرہ چلے گئے اور زاہد عباس کے لاپتہ ہونے کی درخواست دی کہ مقدمہ درج کر کے انہیں تلاش کیا جائے۔‘
’درخواست جمع ہونے کے بعد شام کو پولیس ہیلپ لائن نمبر سے میسج آیا کہ درخواست موصول ہوگئی ہے اور جلد مقدمہ درج کیا جائے گا لیکن اگلے روز اسی نمبر سے میسج موصول ہوا کہ آپ کی درخواست خارج کر دی گئی ہے۔ ہم نے تھانےسے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ ہمیں اس بارے میں کچھ علم نہیں، درخواست آپ کی تھانے میں پڑی ہے لیکن مقدمہ درج نہیں ہوسکتا، وہ خود کہیں گئے ہوں گے واپس آجائیں گے۔‘
عامر نے کہا کہ وہ سپیشل برانچ سمیت دیگر ایجنسیوں سے بھی رابطے کر چکے لیکن ابھی تک کوئی کچھ بتانے کو تیارنہیں ہے۔ ’پوری فیملی پریشان ہے کہ پولیس نہ کارروائی کر رہی ہے اور نہ یہ بتا رہی ہے کہ انہیں کسی معاملے پر حراست میں لیا گیا ہے۔‘
پولیس کارروائی اور صحافیوں کا ردعمل:
معاملے کی معلومات کے لیے اچھرہ تھانے کے تفتیشی افسر مقصود احمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’بالکل زاہد عباس کے لاپتہ ہونے کی درخواست موصول ہوئی ہے، اس پر کارروائی جاری ہے، پہلے مرحلے میں ہم موبائل نمبر سےلوکیشن ٹریس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی تاہم جلد ہی کوئی سراغ لگا لیاجائے گا۔‘
انہوں نے کہاکہ ہم یہ بھی معلوم کر رہے ہیں کہ کسی اور سکیورٹی محکمے نے تو انہیں کسی وجہ سے حراست میں نہیں لیا لیکن اس بارے بھی معلوم نہیں ہوسکا۔
دوسری جانب صحافیوں نے اپنے ساتھی کے لاپتہ ہونے پر ردعمل کا اظہار کیا اور پیر کے روز پریس کلب لاہور کے باہراحتجاجی مظاہرہ بھی کیا مظاہرین نے زاہد عباس سے متعلق فوری حقائق منظر عام پر لانے اور انہیں بازیاب کرانے کامطالبہ کیا۔
صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ زاہد عباس ایک سینئر صحافی ہیں اورعرصہ دراز سے یہاں کام کر رہے ہیں انہیں زیادہ سوشل میڈیا یا سماجی طور پر بھی متحرک نہیں دیکھا نہ ان سےمتعلق کبھی کوئی شکایت موصول ہوئی۔
اعظم چوہدری کے بقول ہم نے مختلف سکیورٹی محکموں سے معلوم کیا ہے لیکن ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا کہ انہیں کسی جرم میں پکڑا گیا ہے یا کسی نے انہیں اغوا کیا ہے۔
’ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں مقدمہ درج کر کے منظر عام پر لائیں اور عدالت پیش کریں تاکہ بنیادی حقوق کے طور پر وہ قانونی مدد حاصل کر سکیں۔‘
ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافی محمد شہزاد کے مطابق وہ خاموش طبیعت اور شریف انسان ہیں کبھی غیر متعلقہ کسی طرح کی مہم یا پروپیگنڈہ کا حصہ بنتے نہیں دیکھا لڑائی جھگڑا بھی انہوں نے کبھی نہیں کیا۔
دوسری جانب پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان سے پولیو میں کام کرنے والے ڈاکٹر ذیشان کو نامعلوم مُسلح افراد نے اغوا کرلیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر شاہد علی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ منگل کو تحصیل میرعلی کے علاقے حیدر خیل میں ایک بجے ڈاکٹر ذیشان کو نامعلوم مُسلح افراد نے اس وقت اغوا کرلیا جب وہ اپنے کلینک سے نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جارہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ذیشان محکمہ انسداد پولیو سے منسلک تھے اور حیدر خیل میں اپنا کلینک بھی چلا رہے تھے۔
پولیس اہلکار کے مطابق ناکہ بندی کے علاوہ چیک پوسٹ پر بھی مشکوک گاڑیوں کو چیک کیا جارہا ہے مگر ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
میرانشاہ میں مقامی صحافی صفدر داوڑ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ منگل کو شمالی وزیرستان میں اغوا کے دو واقعات پیش آئے جس میں آبادی والے علاقوں سے ایک ڈاکٹر اور ایک قبائلی کو اُٹھا لیا گیا۔