اپنی زندگی کو کسی فلم کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا، وقت کا تھم جانا، یا اپنے بدن سے روح کو نکلتا محسوس کرنا شاید اس سے بھی زیادہ عام ہےجتنا ہم سوچ سکتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ہر دس میں سے ایک فرد قریب المرگ ہونے کی کیفیت محسوس کر چکا ہے۔ انسانی جسم کے کسی حقیقی یا خیالی خطرے پر دیے جانے والے ردعمل پر تحقیق کرنے والے ڈینش تحقیق کاروں کے مطابق یہ تجربات ایک میکانی سلسلے کے تحت محسوس کیے جاتے ہیں جوجاگتے میں خواب دیکھنے کا باعث بھی بنتا ہے۔
تحقیق میں شریک افراد کی اکثریت نے ماضی کے رشتہ داروں سے ملاقات یا سینے پر سوار کسی بلا کے ہاتھوں مر جانے یا مفلوج ہو جانے کے احساس کا ذکر بار بارکیا۔ اسی طرح وہ مریض جو دل کے بند ہونے کی صورت حال سے گزر چکے تھے ان میں پانچ سے آٹھ فیصد افراد کی جانب سےموت کے قریب ہونے کا تجربہ محسوس کیا گیا۔
ڈنمارک میں کی گئی اس تحقیق میں 35 ملکوں کے 1 ہزار 34 افراد نے حصہ لیا ۔ ان میں سے تقریبا تین سو افراد نے کسی نفسیاتی یا روحانی تجربے سے گزرنے سے دعوی کیا ہے۔ 73 فیصد کے مطابق یہ تجربہ ناخوشگوار تھا۔ ایک سو چھ افراد کے لیے یہ تجربہ حقیقی تھا۔ اس گروپ میں وہ افراد شامل تھے جو ڈوبنے اور جسمانی تشدد کی صورتحال کا سامنا کر چکے تھے ۔بچوں کی پیدائش کے مرحلے سے گزرنے والی خواتین بھی اس میں شامل تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک خاتون جو آٹھ سال کی عمر میں ڈوبنے کے تجربے سے گزر چکی تھیں ان کے مطابق وہ اس وقت مکمل پر سکون تھیں۔ وہ کہتی ہیں : ’بیس سال بعد بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں کیسا محسوس کر رہی تھی۔ یہ بھی زبردست احساس تھا۔‘
سب سے زیادہ محسوس کیے جانے والا تجربہ وقت کا رک جانا تھا جس کا ذکر 87 فیصد شرکا نے کیا۔ جب کہ برق رفتار خیالات 65 فیصد اورغیر واضح حسیات کے احساس کا ذکر 63 فیصد لوگوں کی جانب سے کیا گیا۔ تقریبا نصف لوگوں نے جسم میں سے جان نکلنے جیسا محسوس کیا ۔ ایک خاتون کے مطابق بچے کی پیدائش کے دوران انہوں نے ایسا ہی محسوس کیا۔ 36 سالہ یہ خاتون کہتی ہیں :’ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں مر چکی ہوں اور جنت میں پہنچ چکی ہوں۔ میں آوازیں سن رہی تھی اور مجھے یقین تھا میں واپس نہیں آسکتی۔ یہ کافی عجیب تھا کیونکہ مجھے اپنے جسم پر اختیار نہیں تھا۔‘
ایک امریکی شخص جنہیں بچپن میں سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا تھا وہ اپنے ڈوبنے کے مناظر کو دوبارہ دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے مرے ہوئے عزیزوں کو بھی دیکھتے ہیں۔ وہ ایک تیز روشنی بھی دیکھتے ہیں جو ان کی جانب ایک تاریک سرنگ سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ احساس نیند اور جاگنے کے درمیان کی کیفیت جیسا تھا۔ گہری نیند کے دوران دماغ ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے جو ریپڈ آئی موومنٹ یا آر ای ایم کہلاتی ہے۔ اس کے دوران دماغ بیدار ہوتا ہے اور خواب کچھ زیادہ واضح ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت جاگتے میں بھی یاد رہ جانے والے خوابوں کا وجہ بن سکتی ہے۔اس میں بعض اوقات انسان مفلوج بھی محسوس کر سکتا ہے۔ اس گروپ کے تقریبا نصف شرکا کی جانب سے یہ بات دہرائی گئی۔ یہ تحقیق ابھی تک صف اول کے کسی مجلے میں نہیں شائع کی گئی لیکن یورپی اکیڈمی آف نیورولوجی کانگریس میں پیش کی جا چکی ہے۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی میں ہونے والی اس تحقیق کی نگران ڈاکٹر ڈینیل کونڈالیزا کہتی ہیں :’ ہم اس نیتجے پر پہنچے ہیں کہ قریب المرگ کیفیات کا آنکھوں کی تیز حرکت اور نیند کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ دماغ میں ریپڈ آئی موومنٹ کے میکانکی نظام کی شناخت ہی ہماری قریب المرگ احساس کی مزید جانچ میں مدد کر سکتی ہے۔‘