پاکستان کی معاشی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی وفاقی حکومت نے بیرون ممالک سے درآمد کی جانے والے مختلف اشیا کی درآمدات پر پابندی عائد کر دی جن میں نئی اور استعمال شدہ دونوں قسم کی امپورٹڈ گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
اس حوالے سے پشاور میں امپورٹڈ گاڑیوں کی کاروبار سے وابستہ فیصل شاہ کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’امپورٹڈ گاڑیوں کی درآمدات پر پابندی سے مارکیٹ میں اب امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس سے عوام متاثر ہوں گے۔ حکومت ایک طرف عوام کو ریلیف دینے کی بات کرتی ہے جب کہ دوسری جانب اب وہی گاڑیاں مہنگی ہوں گی کیونکہ مارکیٹ میں طلب بڑھے گی۔‘
یاد رہے کہ پاکستان میں تین سال تک کی پرانی موٹر کار جب کہ پانچ سال تک پرانی باقی گاڑیاں پرسنل بیگج سکیم، گفٹ اورٹرانسفر آف ریزڈنٹ سکیم کے تحت درآمد کی جاتی ہیں جب کہ نئی گاڑیاں کاروباری شخصیات بیرون ممالک سے درآمد کرتی ہیں۔
ان سکیموں کے تحت سمندر پار پاکستانی دو سال میں ایک مرتبہ گاڑی پاکستان درآمد کر سکتے ہیں اور ان سکیموں کے تحت ہی مسافر بردار گاڑیاں، وین، بس، فور بائی فور گاڑی، ٹریکٹر، موٹر سائیکل اور سائیکل درآمد کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں درآمد شدہ گاڑیوں کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو گذشتہ مالی سال (2020-21) میں پاکستان ادارہ برائے شماریات کے مطابق درآمد شدہ گاڑیوں کا کل حجم تقریبا دو ارب ڈالر تھا۔ جس میں مختلف قسم کی درآمد شدہ گاڑیاں شامل تھیں۔ پاکستان میں درآمد شدہ گاڑیاں ملک کی مجموعی درآمدات کا تقریبا پانچ فیصد ہیں۔
ملک میں امپورٹڈ گاڑیوں کی درآمدات سے کیا مارکیٹ میں ان کی قیمتوں پر کوئی اثر پڑے گا، اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے امپورٹڈ گاڑیوں کی کاروبار سے وابستہ کچھ افراد سے بات کی ہے۔
پاکستان میں درآمد شدہ گاڑیاں صارفین کی جانب سے مختلف وجوہات کی بنا پر پسند کی جاتی ہیں۔
عباداللہ گذشتہ دس سالوں سے امپورٹڈ گاڑی استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ وہ ان گاڑیوں کی پائیداری بتاتے ہیں۔
عباد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میرے پاس ٹویوٹا کی امپورٹڈ 2007 ماڈل کی گاڑی ہے لیکن اس کے فیول کا خرچہ، سیفٹی فیچرز، اور پائیداری مقامی سطح پر بننے والی ٹویوٹا گاڑی سے کئی گنا بہتر ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہ تاثر بھی غلط ہے کہ امپورٹڈ گاڑیاں لگژری ہیں کیونکہ ان میں پرانے ماڈل کی گاڑیاں مڈل کلاس کے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں اور کچھ گاڑیاں تو مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں سے بھی سستی ہوتی ہیں۔‘
یاد رہے کہ بیرون ملک سے صرف تین سال پرانی گاڑی امپورٹ کی جا سکتی ہے لیکن مارکیٹ میں 10 سے 15 سال تک استعمال شدہ گاڑیاں بھی موجود ہیں۔
فیصل شاہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا امپورٹڈ گاڑیوں پر پابندی سے مارکیٹ میں گاڑیوں کی قیمتوں پر اثر پڑے گا، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بھی امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
فیصل کے مطابق ڈالر کے علاوہ بھی جاپان میں گاڑیوں کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں لیکن اب اس پابندی سے رسد میں کمی اور طلب میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
فیصل نے بتایا کہ ’پہلے ویزل گاڑی کی قیمت 46لاکھ روپے تک تھی اور دسمبر جنوری سے اب تک اس کی قیمت 56لاکھ تک ہے۔ اکوا گاڑی کی قیمت 38لاکھ تک تھی لیکن اب تقریبا 45 لاکھ کی ہے لیکن اب اس پابندی سے اس کی قیمتیں مزید بڑھیں گی۔‘
انھوں نے بتایا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی اگر بات کی جائے تو تین سکیموں کے تحت جو گاڑیاں پاکستان درآمد کی جاتی ہیں، اس کا فائدہ تو پاکستان کو ہوتا ہے کیونکہ اس پر ڈیوٹی پاکستان کو دی جاتی ہے اور پیسہ باہر سے آتا ہے لیکن حکومت نے اس پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
فیصل نے بتایا کہ ’زیادہ تر لوگ استعمال شدہ درآمد کی جانے والی گاڑیوں کو نئی امپورٹڈ گاڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ نئی گاڑیوں کے لیے پیسے پاکستان سے باہر جاتے ہیں جب کہ استعمال شدہ گاڑیوں کے پیسے پاکستان واپس آتے ہیں۔‘
خضر خان پشاور میں امپورٹڈ گاڑیوں کی کاروبار سے وابستہ ہیں، انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ امپورٹڈ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کا فائدہ اور نقصان دونوں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’مثبت پہلو یہ ہے کہ امپورٹڈ گاڑیوں کی درآمد تو بند ہوگی لیکن اس سے گاڑیوں کے مقامی سطح پر تیاری میں اضافہ ہوگا جس سے ملک کی معیشت کو فائدہ ہوگا اور لوکل انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔‘
لیکن خضر کے مطابق اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ ’صنعت کار زیادہ تر چاہتے ہیں کہ وہ امپورٹڈ گاڑیوں میں سرمایہ کاری کریں تو وہ سرمایہ کاری اب کم ہوگی۔‘
ان کے مطابق ’میرے خیال میں اس میں کچھ وقت لگے گا کہ سرمایہ کار مقامی گاڑیوں میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ صنعت کار پہلے چاہتے ہیں کہ وہ امپورٹڈ گاڑیوں کے کاروبار میں ہی سرمایہ کاری کریں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ درآمد پر پابندی سے گاڑیوں کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ممکن نہیں ہے لیکن گاڑیوں میں قیمتوں میں اضافہ ڈالر کے ریٹ بڑھنے سے پہلے سے ہوا ہے اور مارکیٹ میں امپورٹڈ گاڑی کی قیمت پہلے سے بہت زیادہ ہیں۔‘
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
امپورٹ پر مجموعی پابندی پر آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر معاشیات شاہ رخ وانی نے گذشتہ روز ڈان ٹی وی کے پروگرام ’ ذرا ہٹ کے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو ایک غلط فہمی یہ ہے کہ وہ بہت زیاہ درآمدات کرتا ہے تاہم ایسا نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی مجموعی درآمدات معیشت کا تقریبا 20فیصد ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ درآمد کی بجائے پاکستان کو برامد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی برامدات 1990 کے بعد سے کم ہوئی ہیں اور ابھی مجموعی معشیت کا تقریباً دس فیصد ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہماری امپورٹ کا سب سے زیادہ حصہ آلات، فیکٹری مشینری، پیٹرولیم مصنوعات، کوکنگ آئل وغیرہ جیسی چیزیں درآمدات کا مجموعی طور پر 60فیصد ہے جب کہ باقی زیادہ تر چیزیں بہت کم درآمد کی جاتی ہیں جس سے معیشت پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑتا۔‘
شاہ رخ وانی نے بتایا کہ ’اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کو زیادہ تر زر مبادلہ ٹیکسز سے آتا ہے تو درآمدات پر پابندی سے وہ ٹیکس اور زر مبادلہ بھی کم ہو گا جس کا نقصان ملک کی معیشت کو ہو گا۔‘
ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے ساتھ بطور پروفیسر کام کرتے ہیں اور پاکستان کی معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کو جب معاشی طور پر سخت حالات کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے تو وہ ایسی حرکتیں کرتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی درآمدات پر پابندی لگا دیتی ہے جس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ سامنے نہیں آتا۔‘
ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ ’ درآمد پر پابندی سے ایک سے دو فیصد تک خسارہ ہی کم ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری بڑی درآمدات پیٹرولیم مصنوعات، ڈیفنس آلات، کوکنگ آئل اور فوڈ ہے جس پر حکومت پابندی نہیں لگا سکتی تو ان دیگر چیزوں کی درآمد پر پابندی سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا گاڑیوں اور دیگر چیزوں کی قیمتوں میں اب اضافہ ہوگا، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے سے موجود درآمد شدہ اشیا کی قیمتیں تو بڑھیں گی لیکن مقامی مارکیٹ میں درآمد شدہ اشیا کی جو متبادل ہیں، وہ کمپنیاں بھی فائدہ اٹھا کر اپنی قیمتیں بڑھایں گی جس کا اثر خریدار پر ہوگا۔