گذشتہ ہفتے (21 مئی) کی شام لاہور کے علاقے شاد باغ سے اغوا ہونے والی 17 سالہ لڑکی کو پنجاب پولیس نے عارف والا سے بازیاب کروا کر تین ملزمان کو ملتان سے حراست میں لیا۔ یہ بازیابی 24 گھنٹوں میں ہوئی، جس پر بہت سے لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا۔
اس اغوا کے حوالے سے جہاں پولیس کی مشینری حرکت میں آئی وہیں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے بھی ازخود نوٹس لیا تھا، جسے لڑکی کی بازیابی کے بعد نمٹا دیا گیا۔
لاہور کے چند شہریوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب انہوں نے لڑکی کے اغوا کی ویڈیو ٹی وی پر چلتی دیکھی تو انہیں یوں لگا کہ جیسے پولیس لڑکی کو ڈھونڈ نہیں پائے گی یا اگر ڈھونڈ بھی لیا تو تب تک اغوا کار لڑکی کو کوئی نقصان پہنچا چکے ہوں گے لیکن جب انہوں نے یہ سنا کہ پولیس نے لڑکی کو بازیاب کروا لیا ہے اور وہ بالکل ٹھیک ہے تو وہ حیران ہو گئے۔
آخر پولیس نے اس لڑکی کو کیسے تلاش کیا؟
اس حوالے سے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کامران عادل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سب سے پہلا کام ملزمان کی شناخت ہوتی ہے۔ ان ملزمان کے نام ایف آئی آر میں درج تھے جن میں سے ایک اس بچی کا سابقہ منگیتر تھا۔ ہم نے ان لوگوں کو اسی دن ٹریس کر لیا تھا جب وہ بچی کو لے کر نکلے۔ انہوں نے بچی کو اغوا کے بعد جیسے ہی اپنے موبائل کھولے تو ہم نے ان کی ٹریکنگ شروع کر دی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’اس سلسلے میں سب سے بڑا رسک یہ ہوتا ہے کہ اغوا کار مغوی کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ اس لیے ہم نے سب سے پہلے اغوا کاروں کے ساتھیوں کو تلاش کیا۔ ان کے یہ ساتھی لاہور میں ہی موجود تھے جو اغوا کاروں کے سہولت کار بھی تھے۔ ہم نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔ ان میں سے کچھ ان کے قریبی رشتے دار بھی تھے۔ جب اغوا کاروں کو یہ معلوم ہوا کہ ان کے سہولت کار ہماری تحویل میں ہیں تو انہیں ہمیں بچی واپس دینی پڑی۔‘
بقول کامران عادل: ’جیسے ہی بچی ہمارے حوالے ہوئی ہم نے ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے کیسز کی انویسٹی گیشن کے دوران ہماری مختلف ٹیمیں کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ’ایک ہمارا کرائم سین یونٹ ہوتا ہے جو فوری جائے وقوعہ پر پہنچتا ہے۔ اس کے بعد ہماری ڈیٹا اینالسز ٹیم موبائل ڈیٹا وغیرہ پر کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ تیسری ہماری ایکشن پارٹی ہوتی ہے جو گرفتاریاں شروع کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کیس میں ہماری ناکہ پارٹیاں بھی تھیں جنہوں نے یہ واقعہ ہوتے ہی فوری طور پر پورے لاہور کو سیل کیا۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم اغوا کاروں کو مسلسل ٹریک کر رہے تھے۔ ہم لوکیٹرز اور آئی ٹی ذرائع کے ذریعے ان کے پیچھے تھے اور ہم نے بچی کو عارف والا سے بازیاب کروایا۔‘
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے مزید کہا: ’ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ہمیں ملزمان کے بارے میں معلوم ہوچکا ہے تو انہیں پکڑ کیوں نہیں رہے، لیکن ہمارا پہلا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اغوا ہونے والے شخص کو صحیح سلامت بازیاب کروالیں کیونکہ اگر اسے کوئی نقصان ہو جائے تو ہمارے سارے ایکشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ‘
مزید پڑھیے: اوکاڑہ کی وکیل خاتون کے اغوا کا معمہ
انہوں نے مزید بتایا کہ ملزمان کے جن ساتھیوں کو ہم نے لاہور سے حراست میں لے رکھا تھا، ان کے ذریعے ہم نے اغوا کاروں پر دباؤ ڈلوایا اور انہیں پیغام بھجوایا کہ ’اگر بچی کو واپس نہ کیا کام بڑھ جائے گا۔‘
’اسی پریشر کی وجہ سے ملزم نے خود ہم سے رابطہ کرکے کہا کہ وہ بچی کو واپس بھیجنا چاہتا ہے لیکن وہ گرفتاری نہیں دینا چاہتا۔ ہم نے کہا کہ گرفتاری نہ دو، آپ ہمیں بس بچی واپس کر دیں۔‘
بقول کامران عادل: ’ملزم نے ہمیں کہا کہ وہ کسی جگہ پر بچی کو چھوڑ دے گا اور ہم وہاں سے اسے اپنی تحویل میں لے لیں۔ ہماری ٹیمیں چونکہ پیچھے تھیں اس لیے بچی کو تحویل میں لینے کے بعد ہم نے انہیں بھی ٹریک کیا اور ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا۔‘
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے یقین دلایا کہ بچی کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ’اتنی جلدی بازیابی بہت کم ہوتی ہے۔ بچی ہفتے کی شام چار بج کر 15 منٹ پر اغوا ہوئی تھی اور اتوار کی شام نو بجے وہ بازیاب ہو چکی تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو ہماری صلاحیتوں پر شک رہتا ہے۔ لیکن اتنی جلدی مغوی کی بازیابی بہت کم ہوتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: ’سرگودھا جیسے چھوٹے شہر سے 151 لڑکیاں کیسے اغوا ہوئیں؟‘
انہوں نے بتایا کہ اس سارے آپریشن کو وہ خود لیڈ کر رہے تھے اور ان کے ساتھ ڈیڑھ سو کے قریب پولیس اہلکار شامل تھے، جو مختلف ٹیموں میں کام کر رہے تھے۔
’یہ بڑا کیس تھا اور پورے شہر میں اس کی بازگشت تھی، اس لیے ہم سارے کام چھوڑ کر اس کیس کے پیچھے لگ گئے۔‘
اغوا ہونے والی میٹرک کی طالبہ نے بازیابی کے بعد پولیس کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ ملزم عابد نے اسے پاکپتن لے جا کر زبردستی نکاح کرنے کی کوشش کی تھی اور انکار پر تشدد کا نشانہ بنایا۔
لڑکی نے بیان میں بتایا کہ اس کے ساتھ کسی نے زیادتی نہیں کی۔
لڑکی اغوا کیسے ہوئی؟
ہفتے کی شام کو شادباغ کے علاقے سے میٹرک کی طالبہ ایک 17 سالہ لڑکی کے اغوا کی ایف آئی آر بچی کے والد کی مدعیت میں تھانہ شادباغ میں درج کی گئی۔
ایف آئی آر میں بچی کے والد نے بتایا کہ ’وہ محنت مزدوری کرتے ہیں اور ان کی بیٹی میٹرک کا پیپر دے کر اپنے بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھر آرہی تھی کہ گورنمنٹ راشدہ ہائی سکول فار گرلز گول باغ شادباغ کے قریب گاڑی میں سوار عابد نامی ملزم نے دو نامعلوم افراد کے ہمراہ انہیں روکا۔‘
انہوں نے بتایا: ’ملزمان نے میرے بیٹے کی موٹر سائیکل روکی، اس پر تشدد کیا اور میری بیٹی کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔‘
اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ جس میں ملزمان کو بچی کو اغوا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اغوا کے اس واقعے پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امحمد امیر بھٹی نے از خود نوٹس لے کر آئی جی پنجاب کو اتوار کی رات دس بجے تک بچی کو بازیاب کروانے کی ہدایت کی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ میں طالبہ کے اغوا سے متعلق پیر کو دوبارہ سماعت ہوئی تھی، جس میں آئی جی پنجاب نے عدالت میں جواب جمع کروایا کہ طالبہ کو بازیاب کروالیا گیا ہے۔
لڑکی کے والد اور چچا کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے طالبہ کے والد سے پوچھا کہ کیا ان کی بیٹی بازیاب ہوگئی ہے؟ جس پر بچی کے والد کا کہنا تھا کہ جی میری بیٹی بازیاب ہوگئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی پنجاب اور سی سی پی او کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ ’یہ ایک بچی نہیں بلکہ پورے خاندان کا معاملہ ہے۔ ہم سب نے مل کر بچی کو بازیاب کروانے میں مدد کی، میں بتا نہیں سکتا کہ طالبہ کی بازیابی پر کتنا خوش ہوں۔‘