بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے جنوب میں تقریباً 70 کلومیٹر دور عشمقام میں واقع حضرت شیخ زین الدین ولی کے آستانے میں مشعلوں سے روشن ایک روایتی تہوار منایا جاتا ہے جس میں لوگ ہاتھوں میں صنوبر کی لکڑی سے بنی مشعلیں لے کر پیدل چلتے ہوئے آتے ہیں۔
مغرب کی نماز کے بعد مقامی آبادی اور سفر کر کے آنے والے لوگ آستانے کے آس پاس اور اندر مشعلیں روشن کرتے ہیں۔
آستانہ پہاڑی پر واقع ہے تو لوگ دور دور سے یہاں آتے ہیں اور سال بھر زائرین اور حاجت مندوں کا آنا لگا رہتا ہے۔
مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ کئی سو سال پہلے یہاں ایک دیو رہتا تھا جس نے عشمقام کی آبادی کا جینا حرام کر رکھا تھا اور وہ انسان ہو یا جانور سب کو کھا جاتا تھا۔
مقامی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ گاؤں والوں نے جا کر دیو سے باری باری کھانے کی درخواست کی جو دیو نے قبول کی اور اس کے بعد ہر دن گاؤں کے کسی ایک شخص کو اس کے پاس جانا ہوتا تھا۔
آستانے کے مجاور شیخ غلام نبی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا یہاں تک کہ ایک دن ایک ایسے شخص کی باری آئی جس کی اسی دن شادی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ لڑکے کے دوست ایک پہلوان نے اس کی جگہ دیو کے غار میں جانے کا فیصلہ کیا۔ یوں وہ غار میں پہنچا اور اس نے دیو سے لڑائی کی، جو ایک ہفتے تک جاری رہی۔
آخر میں گاؤں والے پہلوان کی تلاش میں مشعلیں لے کر غار پہنچے تو دیکھا اس نے دیو کو مار گرایا تھا۔
شیخ غلام نبی نے بتایا: ’یہ دن اس برے دیو کی موت کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’یہ مشعلیں بری طاقتوں پر اچھی طاقتوں کی فتح کی علامت بھی ہیں۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ دن شدید سردیوں کے اختتام اور فصل لگانے کے موسم کے آغاز کی علامت بھی ہے۔‘
جب بھی گاؤں میں کسی آفت کا سامنا ہوتا ہے تو ان آثار اور علامتوں کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ زیارت ہر سال وادی کے تمام حصوں سے لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
ولی صاحب کی برسی پر اجتماعی دعائیں ہوتی ہیں جن میں کم سے کم 20 ہزار افراد شرکت کرتے ہیں۔
ریڈیو فرانس انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وبا کی وجہ سے یہ تہوار گذشتہ دو سال نہیں منایا گیا تھا۔