خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں ویٹرنری ڈاکٹرز کے مطابق لمپی سکن نامی وائرس ضلعے کے نصف سے زیادہ دیہاتوں میں پھیل گیا ہے جس کے بعد حکام بالا کے احکامات پر ہنگامی بنیادوں پر ٹیمیں تشکیل دے کر ویکسینیشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ضلعے میں پہلے سے متاثرہ مویشیوں کا علاج بذریعہ اینٹی بائیوٹیک کیا جا رہا ہے۔
ضلع صوابی کے ایک ویٹرنری آفیسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویکسین کی قیمتیں مختلف کمپنیوں نے مختلف رکھی ہوئی ہیں جو کہ 10 ہزار سے 13 ہزار تک ہیں، جس کی ادائیگی مویشیوں کے مالکان خود کریں گے۔
صوابی کے مرکزی سول ویٹرنری ہسپتال کے ڈاکٹر جان محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلعے کے تقریباً ہر گاؤں میں لمپی سکن کی بیماری پھیل گئی ہے جب کہ اس کا پہلا کیس 13 مئی کو رپورٹ ہوا تھا۔
ڈاکٹر جان معمد کے مطابق، ضلع صوابی میں لمپی سکن وائرس ’پنجاب سے آنے والے مویشیوں کی وجہ سے پھیلا ہے‘، جس کا سدباب کرنے کے لیے ڈائریکٹر لائیوسٹاک کے احکامات پر ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
صوابی کے ایک اور ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر عاصم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے دائرہ کار میں پانچ گاؤں ہیں، جہاں مئی سے اب تک لمپی سکن کے 25 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
’جن علاقوں میں یہ وائرس پھیلا ہے ان میں ڈوڈھیر، زیدہ، پنج پیر، ٹھنڈ کوئی اور کڈی کے علاقے شامل ہیں۔ ضلعے کے دوسرے ویٹرنری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا ڈیٹا ہمارے پاس تو موجود نہیں، لیکن یہ کیسز کافی زیادہ ہوسکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر عاصم کے مطابق ’اینٹی بائیوٹک سے متاثرہ مویشی ٹھیک ہو رہے ہیں تاہم گائیوں میں لمپی سکن کی وجہ سے شرح اموات زیادہ یعنی 30 فیصد ہے، جب کہ بھینسوں میں صرف 1.6 فیصد ہے۔
’بھینسوں کی قوت مدافعت گائے کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں لمپی سکن سے اموات کم ہیں۔‘
ضلع صوابی کے ایک گاؤں ڈوڈھیر کے ایک تاجر سید نذر جو مویشیوں کا کاروبار کرتے ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پچھلے اتوار ملتان سے عید قربان کے لیے جانور خریدے تھے، جن میں ایک بیل کی پیٹھ پر چند دانے تھے۔
سید نذر کے مطابق، یہ چند ہی دانے تھے اور انہیں لمپی سکن بیماری کا کچھ علم نہیں تھا لہذا انہوں نے دیگر مویشیوں سمیت اس کو بھی خرید لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’صرف چند دن میں ہی وہ دانے اس قدر بڑھ گئے کہ مجھے ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا۔ ڈاکٹر نے معائنے پر بتایا کہ یہ لمپی سکن ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بیل کو 106 بخار تھا، نہ کچھ کھا رہا تھا، نہ پی رہا تھا۔ آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے اور ناک سے لیس دار رطوبت خارج ہو رہی تھی۔‘
’ڈاکٹر نے بیمار بیل سمیت باقی تمام 45 مویشیوں کو فی مویشی 500 روپے میں ایک، ایک انجیکشن لگایا۔ بیل کی موجودہ حالت یہ ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سے چارہ کھانے لگا ہے اور پانی بھی تھوڑا سا پی لیتا ہے۔‘
سید نذر کا کہنا تھا کہ ان کے باقی مویشی فی الحال اس وبا سے محفوظ ہیں، صرف ایک بیل اس خطرناک مرض میں مبتلا تھا جو کہ صحت یابی کی طرف جاتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔
صوابی کے ویٹرنری ڈاکٹر کے مطابق، فی الحال لمپی سکن کا واحد علاج ویکسین اور اینٹی بائیوٹیک ہے۔
لمپی سکن وائرس کیا ہے؟
سول ویٹرنری ہسپتال صوابی کے ڈاکٹر جان محمد کے مطابق لمپی سکن بیماری کی پہلی مرتبہ 1929 میں جنوبی افریقہ میں تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد یہ دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلنا شروع ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے، جس سے متاثرہ مویشیوں یا جانوروں کی جلد میں گلٹیاں نکل آتی ہیں۔
’اس کے نتیجے میں مویشیوں میں دودھ کی پیداوار کم ہو جاتی ہے جبکہ حاملہ جانوروں میں اسقاط بھی ہوسکتا ہے۔‘
ویٹرنری ماہرین کے مطابق، جانوروں کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا وائرس کی منتقلی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ انسانوں میں منتقل نہیں ہوتی۔