پاکستان کے صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں بالخصوص کراچی کے مویشیوں میں لمپی سکن بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے گوشت اور دودھ کے ذریعے یہ بیماری انسانوں میں منتقل ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جانوروں کے ڈاکٹر اور جانوروں کی صحت کے شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ثاقب خان نے بتایا: ’انسانوں میں لمپی سکن بیماری کے منتقل ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں کیوں کہ انسانوں میں اس بیماری کے کوئی رسیپٹرز موجود نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’کسی بھی بیماری کے منتقل ہونے کے لیے اس حیاتیات کے اندر اس بیماری کے رسیپٹرز ہونا بہت ضروری ہیں۔ لمپی سکن بیماری کے رسیپٹرز انسانوں میں موجود نہیں ہیں اس لیے یہ انسانوں میں منتقل نہیں ہوتی۔ یہ گوشت اور دودھ استعمال کرنے کی صورت میں بھی منتقل نہیں ہوسکتی۔‘
ثاقب خان کے مطابق: ’گائے کے گوشت اور دودھ سے انسان کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑ رہا۔ تو آپ اس کا گوشت بھی استعمال کرسکتے ہیں اور دودھ بھی، زیادہ درجہ حرارت پر پکا کر۔‘
ان کے مطابق: ’کراچی کے زیادہ تر ذبح خانوں میں کہیں بھی ایسا گوشت نہیں مل رہا جو لمپی سکن بیماری سے متاثر ہو کیوں کہ جب گائے کو یہ بیماری ہوجاتی ہے تو اس کا گوشت کالا ہوجاتا ہے۔ اس کے جسم پر دانے اور سپاٹس بن جاتے ہیں۔ کوئی بھی گاہک ذبح خانے میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہر امراض حیوانات کے مطابق: ’یہاں ذبح خانے میں آنے والا جتنا بھی گوشت ہے وہ صحت مند ہے۔ لوگ اسے استعمال کرسکتے ہیں، اپنے گھروں میں، ہوٹلوں میں اور دیگر جگہوں پر اس میں کوئی بیماری نہیں ہے۔‘
کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں واقع ذبح خانے میں موجود کچھ قصائیوں سے انڈپینڈنٹ اردو نے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ لمپی سکن بیماری کی خبروں کے باعث ان کا کاروبار بہت متاثر ہوا ہے۔
نبیل نامی قصائی کا کہنا تھا کہ ’روزانہ ہماری دن کی ڈیڑھ لاکھ روپے سیل ہوتی تھی مگر اب صرف 20 سے 25 ہزار کی فروخت ہورہی ہے۔‘
قصائی محمد کامران نے بتایا: ’اس ذبح خانے میں خاموشی چھا گئی ہے۔ گاہک آتے ہی نہیں ہیں کیوں کہ وہ ڈرے ہوئے ہیں۔ ہماری سیل میں تقریباً 70 فیصد کمی آئی ہے۔ ہم ذبح خانے میں جتنا بھی گوشت لاتے ہیں وہ صاف ستھرا اور صحت مند ہے۔ اس پر کے ایم سی (کراچی میٹروپالیٹن کارپوریشن) کی مہر تک لگی ہوئی ہوتی ہے۔‘
کراچی کے علاقے لانڈھی کی بھینس کالونی میں واقع جانوروں کے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر زمران باجکانی نے انڈپینڈنٹ ارد کو بتایا کہ مویشیوں میں لمپی سکن کے وائرس کے پھیلاؤ کی شرح 90 فیصد ہے جب کہ اس کی شرح اموات پانچ فیصد ہے۔
ان کے مطابق: ’اس بیماری میں مبتلا ہونے والی گائے کے جسم کا درجہ حرارت اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دیتی ہے جس کے باعث وہ کمزور ہوجاتی ہے اور دودھ دینا چھوڑ دیتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس وائرس سے گائے کی جلد پر پھوڑے، گانٹھیں اور دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔ ان دانوں میں پیپ بھی پڑ جاتی ہے جو کہ گائے کی کھال سے گوشت تک سرایت کرجاتی ہے۔ اس کے باعث بیمار گائے کے گوشت میں بھی دانے کے نشان ہوتے ہیں اور وہ گوشت استعمال نہیں ہوتا۔‘
سرکاری ہشپتال کے ڈاکٹر زمران باجکانی نے بتایا: ’اس وائرس کی شرح اموات تو کم ہے مگر جب کسی گائے کے دودھ کی پیداوار ختم ہوجائے اور اس کا گوشت قابل استعمال نہ ہو تو ایسی گائے کو قتل کردیا جاتا ہے تاکہ یہ بیماری ایک گائے سے دوسری میں نہ پھیلے۔‘
ان کے مطابق: ’سندھ میں اس بیماری کا سب سے پہلا کیس دو ماہ قبل رپورٹ ہوا تھا۔ مگر اس سے پہلے یہ بیماری افریقہ میں پائی گئی تھی جہاں اس سے 80 لاکھ جانور متاثر ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ ایران اور بھارت سے ہوتی ہوئی پاکستان میں آگئی۔ اس کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ مکھیاں اور مچھر ہیں۔ کیٹل فارمرز کو چاہیے کہ وہ مچھروں کا سپرے مسلسل کرتے رہیں۔‘
ڈاکٹر باجکانی نے بتایا کہ ’یہ ایک وائرل بیماری ہے اور اس بیماری کا صرف ایک ہی اعلاج ہے اور وہ ہے ویکسین جو کہ پاکستان میں اس وقت مسیر نہیں۔‘