ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام سے متعلق ’گستاخانہ‘ بیان پر ہونے والے ملک بھر میں مظاہروں میں طاقت کا بے جا استعمال نہ کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا بورڈ کے سربراہ، آکر پٹیل نے کہا کہ ’بھارتی حکومت خصوصی طور پر ان مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف بات کرنے اور پرامن طریقے سے اپنے اختلاف کا اظہار کرنے کی جرات کرتے ہیں۔‘
’بھارتی حکام کی طرف سے طاقت کے بےجا استعمال، بغیر بتائے حراست میں لیے جانا اور تعزیراتی مکانات مسمار کرنے کے ساتھ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور معیارات کے تحت بھارت کے وعدوں کی مکمل خلاف ورزی ہے۔‘
یہ بیان اتر پردیش میں حکام کے تشدد کے الزامات سہنے والے مسلمانوں کے گھر مسمار کرنے کے دو دن بعد آیا۔ یہ مظاہرے پچھلے جمعے کو نریندر مودی کی ہندو بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک ترجمان نوپور شرما کے بیان کے بعد دیکھنے میں آئے۔
اس ماہ کے شروع میں، نوپور شرما کی پارٹی کی مرکزی ممبرشپ معطل کردی گئی تھی اور ایک درجن سے زائد مغربی ایشیائی ممالک سے اعتراض کے بعد بی جے پی کے دہلی یونٹ کی میڈیا ونگ چیف نوین جندال کو نکال دیا گیا تھا۔
تاہم، مظاہرے نہ صرف بھارت جبکہ ہمسائیہ ممالک جیسے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی ہو رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے، بھارت میں جمعے کی نماز کے بعد مظاہرے زور پکڑ گئے۔ جھارکھنڈ کی رانچی شہر میں کم از کم دو لوگ جھڑپوں میں گولیوں کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے چلے گئے۔
ایمنسٹی کے بیان میں کہا گیا ہے: ’10 جون کو، میڈیا نے ایک واقعے کی اطلاع دی جہاں جھارکھنڈ کے رانچی میں احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں کو لاٹھیاں مارتے، پتھراؤ کرتے اور راہ گیروں کو گولی مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک اور راہ گیر کو پولیس نے بازار سے واپس آتے ہوئے چھ گولیاں ماریں۔ پولیس نے 15 سالہ بچے سمیت دو مظاہرین کو سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔‘
Our statement on the excessive use of force on protestors by Indian authorities pic.twitter.com/jiGW49nTiE
— Amnesty India (@AIIndia) June 13, 2022
مغربی بنگال اور اتر پردیش کی ریاستوں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات تھیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ ایک پولس افسر اتر پردیش کے سہارن پور میں حراست میں لیے گئے مظاہرین کو بار بار لاٹھیوں سے مار رہا ہے۔ اس ویڈیو کو بی جے پی کے سیاست دانوں اور سابق پولیس افسران نے بڑے پیمانے پر شیئر کیا تھا۔
منگل کو، 12 ریٹائرڈ ججوں اور سینئر وکلا نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی، جس میں اس پر زور دیا گیا کہ وہ اتر پردیش میں مسلم مظاہرین کے خلاف ریاست اور پولیس کے تشدد کا از خود نوٹس لے۔
خط میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور گھروں کو مسمار کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا: ’حکمران انتظامیہ کی طرف سے اس طرح کی ظالمانہ پابندی قانون کی حکمرانی کی ناقابل قبول خلاف ورزی اور شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے اور آئین اور ریاست کی طرف سے فراہم کردہ بنیادی حقوق کا مذاق اڑاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پٹیل نے کہا کہ ’تمام مظاہرین بشمول پرامن لوگوں کو امن عامہ کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنا اور ان کے ساتھ برتاؤ کرنا انتہائی تشویشناک ہے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے ریاستوں کے اقدامات میں تشویشناک اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔‘
اگرچہ بی جے پی نے اس مہینے کی شروع میں ایک بیان جاری کیا تھا جس میں شرما اور جندل کے بیانات سے دوری اختیار کی گئی تھی، مگر ناقدین نے وزیر اعظم کی خاموشی کو سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔
پٹیل نے کہا: ’بدقسمتی سے، وزیر اعظم اور مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے یہ ظاہر کرنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو امن عامہ کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنے یا دیگر دقیانوسی تصورات اور تعصبات کو سرایت کرنے والے کسی بھی بیان کو ناپسند کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد واقعات کو جواز فراہم کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔‘
’انہیں ایسے کسی بھی بیان کے لیے عوامی سطح پر اپنی مخالفت ظاہر کرنی چاہیے۔‘
© The Independent